Site icon News Intervention

ہمالیائی گلیشیر صدی کے آخر تک 80 فیصد حجم کھو سکتے ہیں: تحقیق

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ہمالیائی گلیشیر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یہ گلیشیر تقریباً2ارب لوگوں کو پانی فراہم کر رہے ہیں اور اب غیر متوقع اور مہلک آفات سے دوچار کرنے کا موجب بھی بنتے جا رہے ہیں۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ(ICIMOD)کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے مقابلے میں 2011سے2020تک گلیشیرز65فیصد تیزی سے غائب ہوئے۔

مرکزی مصنف فلپس ویسٹر نے بتایا کہ ’جیسے جیسے یہ گرم ہوتا جائے گا، برف پگھل جائے گی، جس کی توقع بھی کی جا رہی تھی، لیکن جو چیز غیر متوقع اور تشویشناک ہے، وہ رفتار ہے۔ یہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ تیزی سے جا رہا ہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوکش ہمالیہ کے علاقے میں موجود گلیشیرز پہاڑی علاقوں میں تقریباً240ملین لوگوں کے ساتھ ساتھ نیچے دریا کی وادیوں میں موجود مزید 1.65ارب لوگوں کیلئے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔

نیپال میں قائم ICIMOD ایک بین الحکومتی تنظیم ہے، اس تنظیم کے رکن ملکوں میں بھارت، پاکستان، میانمار،افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان اور چین بھی شامل ہیں۔ تنظیم نے کہا کہ موجودہ رفتار کے مطابق گلیشیرز صدی کے آخر تک اپنے موجودہ حجم کا 80فیصد کھو سکتے ہیں۔

گلیشیرز دنیا کے 10اہم ترین دریائی نظاموں کو چلاتے ہیں، جن میں گنگا، سندھ، پیلا، میکونگ اور اراوادی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اربوں لوگوں کو خوراک، توانائی، صاف ہوا اور آمدنی فراہم کرتے ہیں۔

ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے میں طے شدہ صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 1.5سے 2ڈگری سنٹی گریڈ تک گلوبل وارمنگ محدود رکھے جانے کی صورت بھی اس صدی کے آخر تک ان گلیشیرز کا حجم ایک تہائی سے نصف تک کم ہو جائے گا۔

1800کے وسط سے لے کر اب تک دنیا نے اوسطاً1.2سینٹی گریڈ درجہ حرارت بڑھایا ہے، جس نے شدید موسموں کو جنم دیا ہے۔ گرمی کی شدید لہریں، شدید خشک سالی اور طوفانوں نے صورتحال کو مزید خوفناک بنا دیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے کمزور لوگ یا غریب ترین ملکہیں، جنہوں نے فوسل فیول کے اخراج میں بہت کم حصہ ڈالا ہے۔

Exit mobile version