Site icon News Intervention

سینتالیس 47 کا قبائلی حملہ ، تاریخ کے آئینے میں

                                                                                                       

22اکتوبر 1947 ریاست جموں کشمیر پر پہلا بیرونی قبائلی/پاکستانی حملہ، جب ریاست کی وحدت پارہ پارہ ہوئی

پاکستان اگر قبائلی حملہ نہ کراتا تو ہماری ریاست خودمختار طور پر برقرار رہتی، تقسیم نہ ہوتی

22 اکتوبر ریاست کے اندر بسنے والے ریاستی غیر مذہب خاص طور پر ہندو اور بشمول مسلمانوں ، سکھوں کو اسلام کے نام پر قتل کیا گیا ، عصمت دری کی گی لوٹا گیا

تحریر:- شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ،مرکزی چیف آرگنائزر جموں کشمیر عوامی ورکرز پارٹی ( نکیال/کوٹلی)

                                                                                                      22 اکتوبر 2022، روزنامہ چٹان سری نگر ، کشمیر 

سامراجی و غاصب طاقتیں اپنے غاصبانہ و سامراجی تسلط کے دوام اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے مطلوبہ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے حصول اس کے بنیادی محرکات و لوازمات کی تشکیل کے ساتھ مقبوضہ و محکوم استحصال زدہ طبقات وعوام کو گمراہ کرنے کے لیے،

انھیں بہکانے بیوقوف بنانے اور سہولت کاری کی جڑیں اقتدار و انتظامی ذیلی ڈھانچوں میں پیوست کر نے کے لیے،عوامی ہمداری کے حصول کی خاظر بے بنیاد من گھڑت جھوٹے پروپیگنڈوں سے رائے عامہ کو ایسے خطوط پر استوار کرتے ہیں جن کے بل بوتے پر مطلوبہ مزموم مقاصد و اہداف ہر ممکنہ طور پر یقینی ہو سکیں

جس کے لیے تمام سامراجی سوچوں وسائل اور ہتکھنڈوں عزائم سے اس قوم یا ملک کی تاریخ و تہذیب،علم و ادب ثقافت و روایات،معشیت و وسائل کو نیست و نابود کیا جاتا ہے تاریخی حقائق کو مسخ کر کے توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے حقائق کے برعکس مسلسل پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں،ان حقائق کو جھٹلایا جاتا ہے عوام کے سامنے نہیں آنے دیا جاتا۔

اپنے عزائم کے مطابق نصاب لاگو کیے جاتے ہیں اور عوام کو اس طرح مسخ شدہ نصاب و درس ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ وہ، سچ کیا ہے؟جھوٹ کیا ہے؟حقائق کیے تھے اس بارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر منجمندسوچوں کے حامل حثیت روپ کر لیتے ہیں۔

قومی علمی ادبی ورثے پر ایسی ضرب لگائی جاتیں ہیں کہ صدیوں تک قومیں غلامی محکومی استحصال جبر و استبداد کی لعنتوں کو مقدر و تقدیر قرار دے کر قومی آزادی و انقلاب،جداگانہ تشخص اور وحدت سے محروم ہوئے رہتے ہیں۔

ریاست جموں کشمیر کی تاریخ و ثقافت تہذیب علم و ادب کے ساتھ اس ریاست پر موجود غاصبو نے ریاستی سہولت کاروں کی وفاداریوں کی قیمت پر مذہب،علاقہ برادری کے حامل تعصب تنگ نظری سہارے،جو کھلواڑ کیا،بدنیتی کی،انسانیت کا قتل کیا،وسائل کو لوٹا غلامی محکومی جبر و استحصال کا بازار گرم کیا وہ کردار انتہائی شرمناک و قابل مذمت رہاشاید ہی اس سے بدتر حشر دنیا میں ایسی کسی بھی ریاست یا عوام کے ساتھ کیا گیا ہو۔

مذہبی انتہا پسندی کو بطور نظریاتی ہتھیار بنا بے بنیاد من گھڑت پروپیگنڈے سے ریاست جموں کشمیر کے آخری حکمران مہارجہ ہری سنگھ کی شخصیت و کردار،ذات و خیالات کو جس قدر متنازعہ بنایا گیا الزامات لگائے گے،عوام کے ذہنوں میں نفرت پروان چڑھائی گئی شاید ایسی کوئی اور مثال موجود نہ ہو۔اور اسی بنیاد پر ریاست جموں کشمیر کو تقسیم کر دیا۔

مسلم کانفرنس نے جولائی 1946میں ”قرارداد آزاد کشمیر“ تک منظور کر لی اور نیشنل کانفرنس نے ”کشمیر چھوڑ دو“ کے طور پر ریاست کی آئینی جمہوری حکومت کے لئے توانیاں صرف کرنا شروع کیں۔جب کہ ادھر برطانوی راج نے بھی برصغیر کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کر کے تقسیم کی تاریخ کا بھی تعین کر دیا۔

برصغیر کی تقسیم کے وقت ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں قانون آزادی ہند کے تحت یہ شق بھی شامل کی گئی کہ اپنی اپنی ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ والیان ریاست خود کریں گئے۔

انھیں اس بات کا بھی پابند کر دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو بھارت یا پاکستان میں سے کیسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو آزاد ی و خود مختار ی کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔

انہی شقوں کی بنیاد پر ریاست حیدر آباد نے خود مختاری اور ریاست جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا۔پاکستان نے ان دونوں فیصلوں کو تسلیم کر لیا۔

جو قانون آزادی ہند کے تناظر میں درست تھے۔ان حالات میں ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھی ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے کرنا تھا۔ ریاست کا مہاراجہ ہری سنگھ بھی اصل النسل تھا جو ریاست کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتا تھا۔

جب کہ وزیر اعظم رام چند کاک بھی ریاست کی خود مختاری کے لئے بے تاب تھا۔لیکن ان حالات میں ریاست کی خوش قسمتی کو پاکستان اور ان کے بغل بچے قبائلیوں نے بد قسمتی میں بدل کر رکھ دیا۔ریاست کے حق آزادی پر شب خون مار اگیا۔

پاکستان نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لالچ و غاصبیت میں کشمیر کو غلام بنانے اور تقسیم کرنے میں پہل کی۔اس بات میں رتی بھر فرق نہیں ہے کہ کشمیر پر قبضہ کی پاکستان نے ہی بنیاد رکھی اور یہی مسئلہ کشمیر کا موجد و بانی ٹھہرا۔

پاکستان نے 22اکتوبر 1947کو قبائلیوں کے خونخوار ی یلغاری لشکر ریاست جموں و کشمیر میں داخل کیے۔

پاکستان کی تقسیم کشمیر میں پہل نے بھارت کو کشمیر پر قبضہ کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا۔

قارئین!

اس کالم میں حوالہ جات اور تمام حقائق میجر (ر) امیر افضل خان کے چشم کشا مضامین،جی ایم میر کی کتاب کشور کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ،انقلاب کشمیر،گم گشتہ قوم،کشمیریز فائٹ فر فریڈم،فریڈم ایٹ مڈ نائٹ،پاکستان کی سیاسی تاریخ،میموریز آف جناح،مسئلہ کشمیر ار تقسیم ہند،کشمیر ان دی کراس فائر،کشمیر اور جونا گڑھ کی کہانی،ٹونیشنز اینڈ کشمیر جیسی مستند و شہرہ آفاق کتب اور روز نامہ جنگ کے چند مضامین سے لے گئے ہیں۔

تاکہ قارئین! بطور دلائل و حق،سچ کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں۔

ْٓقارئین!

22اکتوبر 1947کو وزیر (قبائل)،مسعود،سلیمان خیل،دوڑ،بھٹنی،توری آف،آفریدی،ادم خیل،مہمند،مینگل،کوچی،زوران،شنواری،پاوندہ،یوسف زئی،سالارزئی،خلجی اور کنڈی جیسے سرحدی قبائل ریاست جموں وکشمیر میں داخل ہوئے۔ان قبائل کے راہنماوں میں پیر مانکی شریف،پیر صاحب لانڈر،پیر صاحب زکوڑی شریف،کپتان میر بادشاہ مسعود، نذرملا، بادشاہ گل مہمند،پیر وانا شریف وغیرہ شامل تھے۔

قارئین! آخر کشمیر میں ان قبائل کو کیوں شامل کیا گیا۔

اس جواز کو تلاش کرنے کے لئے جی ایم میر کی کتاب کشور کشمیر میں پاکستان کے صف اول کے لیڈر سردار شوکت حیات خان جو کہ مسلم لیگ کے مرکزی صدر اور کئی حکومتی عہدوں پر رہ چکے رہے ان کا ایک بے سروپاموقف پیش خدمت ہے۔:”ہندوستان نے سیکورٹی کونسل کی قرار داد قبول کی،جس میں کشمیر کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے ہونا تھا۔

وہ اس ریفرنڈم کو حیلوں بہانوں سے ٹالتا رہا۔اقوام متحدہ میں حلیفہ یقین دہانی کے باوجود رائے شماری کرنے کے فیصلے پر عملدارآمد کرنے سے منکر ہو گیا۔ہم نے مہاراجہ اور ہندوستان کی بد نیتی کو بھانپتے ہوئے کشمیر میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔“

قارئین!سچ تو یہ ہے کہ قبائلی لشکر کشمیر میں 22اکتوبر کو داخل ہو گئے تھے۔بھارت نے مہاراجہ کشمیر کی درخواست پر اپنی افواج ہوائی جہازوں کے ذریعے 27اکتوبر کو سرینگر میں اتار یں۔ یکم جنوری 1947کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش ہوا اور 13اگست 1948کو وہ قرارداد منظور ہوئی۔

                      جس میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کے لئے رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا گیا۔جسے بھارت اور پاکستان دونوں حکومتوں نے منظور کر لیا۔ان حقائق کی روشنی میں سردار حیات خان کا بیان کیسی تبصرے کا محتاج نہیں۔

کشمیر میں قبائلی لشکر کے منصوبہ کے بارے میں ”فریڈم ایٹ مڈ نائٹ“ میں بڑی وضاحت کے ساتھ مرقوم کیا گیا ہے کہ ”جب برطانیہ نے تقسیم ہند کا فیصلہ کر لیا تو افغانستان کے شاہ ظاہر شاہ نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کے جو علاقے انگریزوں نے ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ میں شامل کیے تھے وہ واپس کئے جائیں۔انگریزوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔

تو ظاہر شاہ نے ایک بار پھر لکھا کہ افغانستان اور ہندوستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کی جو سرحد مقرر کی گئی تھی وہ ہم سے پوچھ کر نہیں بنائی گئی اس لئے ہم اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں۔اسکا بھی جواب انگریزوں نے نہ دیا۔اسکے بعد ظاہر شاہ نے خاموشی سے قبائلی علاقوں میں لشکر بھرتی کرنے کا منصوبے شروع کئے۔اسکا منصوبہ یہ تھا کہ پشاور سمیت سرحد کے مختلف شہروں پر قبضہ کر لیا جائے۔

جب پاکستان کے ارباب اختیار کو اس منصوبہ کی اٹ سٹ معلوم ہوئی تو انہیں سخت تشویش لاحق ہو ئی۔باہمی مشورہ کے بعد یہ طے پایا گیا کہ ان قبائلی لشکروں کو سری نگر کا راستہ دیکھا دیا جائے۔اس مقصد کے لئے علماء کی خدمات حاصل کیں گئیں تاکہ علماء پٹھانوں کو جہاد کی ترغیب دیں“۔”ان پٹھانوں کو بھڑکا کر سری نگر پہنچایا جا سکتا تھا۔افغانستان کے حکمران پٹھانوں کو اشتعال دے رہے تھے کہ وہ پشاور کو لوٹ لیں۔

اگر ان پٹھانوں کو سری نگر پہچا دیا جائے تو انکی نظریں پشاور سے ہٹ جائیں گئیں۔اور لوٹ مار کرنے کے بجائے وہ اپنی پیاس سری نگر کے بازروں میں بجھائیں گئے۔وہ یقینا ایسا ہنگامہ برپا کریں گئے کہ مہاراجہ گھبرا جائے گا اور پاکستان سے فوجی مداخلت کی درخواست کرے گا۔اس بہانے سے پاکستان فورا سری نگر میں اپنی فوج بٹھا دے گا۔

مہاراجہ مجبور ہو کر پاکستان کے ساتھ کشمیر کا انضمام کر یگا۔ تین دن بعد پشاور کی ایک خستہ حال عمارت میں پٹھانوں کے نمائندوں کی ملاقات اس شخص سے ہوئی جسے پٹھانوں کو اشتعال دے کر سری نگر پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

اس کا نام میجر خورشیدانور تھا۔اس نے اسلام کا واسطہ دے کر پٹھانوں کو سمجھایا کہ اگر کشمیر میں فورا کوئی کاروائی نہ کی گی تو وہاں کا ہندو مہاراجہ اپنی ریاست کو ہندوستان سے ملا دے گا۔جسکی وجہ سے لاکھوں مسلمان ہندوؤں کی مکار حکومت کے پنجے میں آجائیں گئے۔جہاد کی یہ دعوت پٹھانوں کے علاقوں میں برقی لہر کی طرح دوڑ گئی۔

جلد ہی چپکے چپکے ہتھیار تقسیم ہونے لگے۔“

میجر(ر) امیر افضل خا ن ”چشم کشا سلسلہ مضامین“کی قسط نمبر 10میں ایک انکشاف کرتے ہیں جو کہ روز نامہ نوائے وقت کی 21ستمبر 2003کی اشاعت میں شامل ہے۔وہ لکھتے ہیں ”خورشید انور بھی لیاقت علی کا خاص آدمی تھا جس نے سرینگر کیطرف پیش قدمی کا ڈرامہ کیا اور بھارت یا نہرو کی ضرورت پوری کی کہ سردیوں سے پہلے بھارتی فوج مہاراجہ کی امداد کے لئے پہنچ گئی۔“

وہ مزید اپنی کتاب ”جہاد کشمیر 1974-48“ کے دسویں باب میں لکھتے ہیں کہ ”ہمارے ملک میں نہرو کی اس ضرورت کو کس نے پروان چڑھایا؟قائد اعظم کو تو بے خبر رکھا گیاتھا۔“بائیس اکتوبر کو پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے قائد اعظم کو اطلاع دی کہ ”پانچ ہزار قبائلی لشکر مظفر آباد کے راستے وادی میں داخل ہو گئے ہیں“۔

اس پر محمد علی جناح کا ردعمل کے طور پر جواب تھا کہ ”مہاراجہ سے ہمارا جو معائدہ ہوا ہے اس کا کیا بنے گا؟“یہ قدم قائد اعظم کو اندھیرے میں رکھ کر اٹھایا گیا تھا جس پر قائد اعظم کو شدید رنج تھا۔قارئین! اولین کے کشمیر کے مستقبل سے وابستہ محرکات کے بعد قائد اعظم بھی کشمیر کو خود مختار دیکھنا چاہتے تھے۔

وہ اپنے پرائیویٹ سیکرٹری و فرزند کشمیر،کے ایچ خورشید کو بھی خود مختار کشمیر کے لئے جدو جہد کرنے کا مشورہ دے چکے تھے۔مہاراجہ کشمیر اور ان کے درمیان ایک معائد ہ بھی ہو چکا تھا۔

جس پر آئندہ کسی کالم میں روشنی ڈالی جائے گئی۔

مسلم لیگ کے سابق صدر سردار شوکت حیات خان نے اپریل 1995میں روز نامہ جنگ لندن کے ایک انٹریو میں قبائلی یلغار پر خاصی روشنی ڈالی۔سردار شوکت حیات خان کی کتاب The Nation that Lost its Soul)) کے چند اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

”مجھے کشمیر آپریشن کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔میں نے بریگیڈئیر شیر خان اور بریگیڈئیر اکبر خان کی شمولیت کامطالبہ کیا ہر دو کا تعلق 13/2فرنٹئیر فورس (پفرز) سے تھا۔ہم نے یہ درخواست کی کہ ہمیں وہ دیسی ساخت کی بندوقیں جو قلعہ لاہور میں پڑی ہیں دے دی جائیں۔علاوہ اس کے ہم نے سابقہ آئی این کے جنرل کیانی،کرنل دارا اور تاج خانزادہ کو بھی اس مہم میں شامل کر لیا۔ایسے وقت غلام محمد وزیر خزانہ پاکستان کے اپنے ایک رشتہ دار میجر خورشید انور کو جو ریلوے بٹالین کا ایک ریزرو افسر تھا اور جس نے شمال مغربی سرحدی صوبے میں ریفرنڈم کے دوران مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے کمانڈر کی حثیت سے آنکھ مچولی کھیلی تھی،کی سفارش کی کہ اسے بھی ہائی کمانڈ میں شامل کیا جائے۔اس کی قابلیت صرف اتنی تھی کہ وہ اور غلام محمد دونوں ککے زئی تھے۔میں نے اس سفارش کو ٹھکرا دیا کہ میں اس غیر فوجی شخص کو فوج کی کمانڈ نہیں دے سکتا تھا۔

لیکن غلام محمد اورلیاقت حیات علی خان نے اصرار کیا کہ نیشنل گارڈ کو خوش کرنے کے لئے اس کی شمولیت منظور کی جائے۔بارہ مولا میں قبائیلیوں نے خورشید انور کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔

خزانے سے بر آمد شدہ تین لاکھ روپے کی رقم کو قبائلی مجاہدین اپنی مالکیت سمجھنے لگے۔اسی دوران انہوں نے مقامیوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔بارہ مولا کانونٹ کی راہباوں کے لاکٹ اور بندے اتار لے گئے۔ان قبایلیوں نے بازار میں لوٹ مار شروع کر دی۔اس طرح قیمتی وقت ضائع ہو گیا۔۔۔۔

ہم نے کشمیر اپنی حماقتوں اور اناڑی پن سے کھویا۔“سابق چیف جسٹس خواجہ محمد یوسف صراف اپنی ”شہرہ آفاق تصنیف“،”کشمیر یز فائٹ فار فریڈم“ میں رقمطراز ہیں کہ

”قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد وقت ضائع کئے بغیر بارہ مولا کے عوام پر ٹوٹ پڑیں اور چند گھنٹوں کے اندر کئی عمارتوں نذر آتش ہو گئیں۔پختہ اینٹوں کے مکانات میں زبردستی داخل ہو کر مکینوں کو موت کا خوف دلا کر لوٹ لیاگیا۔دریائے جہلم کے بائیں کنارے بیسیوں مکانات جلا کر خاک کر دیئے گئے۔“

۔”سینٹ جوزف ہسپتال کی مدرسپیرئیر تین راہباوں (Nuns)اور ایک برطانوی جوڑے کو جو وہاں ٹھہرا ہوا تھا قتل کر دیا گیا۔

میرے پڑوس میں رہنے والے تین ہندو،شمبھو ناتھ،وید لال،ارجن ناتھ،جو تینوں سکول ماسٹر تھے قتل کر دیا گیا۔جہاں تک لوٹ مار اور آتشزدگی کا تعلق ہے۔ہندوں اور مسلمانوں میں کوئی تمیز نہیں برتی گئی۔“

۔”مثال کے طور پر چار بیٹیوں کے باپ غنی نامی ایک غریب جولاہے کی لوئی (کمبل) ایک قبائیلی بالجبر چھیننے لگا تو غنی نے پوچھا کہ ”کیاتم لوگ اسی مقصد کے لیئے کشمیر آئے ہو؟“ یہ سنتے ہی غنی کو موقع پر ہی گولی ماری گئی۔

مقامی سینماہال کو عملا ایک قبحہ خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ایک آسودہ حال مسلمان گھرانے کی تمام خواتین حفظ ماتقدم کے طور پرشہر سے باہر چلی گئی تھیں۔بدقسمتی سے ان کی ایک بہو کسی وجہ سے گھر میں رہ گئی تھی۔

کسی قبائلی کی اسپر نظر پر گئی۔اور اسے کیمپ میں چلنے کا حکم دیا۔لڑکی نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے اندر جا کر نئے کپڑے پہنے اور زیورات ساتھ لانے کی اجازت چاہی جو اسے دے دی گی۔

لڑکی ایک بڑے کمرے میں داخل ہو ئی جس میں گھوڑے کے لئے چارہ رکھا ہوا تھا۔لڑکی نے چارہ کو آگ لگائی اور خود اس میں چھلانگ لگا دی۔

جس سے نہ صرف وہ لڑکی اور اسکا محلے کے دو سو مکانات جل کر خاکستر ہو گئے“۔”رسول نامی ایک شہری نے جو تیل نکالنے کی مشین کا مالک تھا۔200قبائلیوں کو رات کے کھانے پر مدعو کیا۔کھانا کھا چکنے کے بعد ”مہمانوں“ نے عورتوں کا تقاضہ کیا۔خوش قسمتی سے تمام عورتوں کو پہلے ہی سے باہر بھیجا جا چکا تھا۔گھر میں ایک عمر رسیدہ دادی اماں تھیں۔

قبائلی نہایت بد دلی کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو گئے۔گھروں کو لوٹتے وقت صرف نقدی اور زیورات پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ سماوار اور پتیل کے برتن بھی اسی خیال میں لوٹتے رہے کہ یہ سونے کے بنے ہیں۔

بعض قبائلیوں کو ایسے فرن پہنے ہوئے بھی دیکھا گیا جو خواتین کا مخصوص لباس تھا۔“فریڈم فائٹ میں اس یلغار کے بارے میں مزید یہ لکھا گیا ہے کہ ”ہندوستانی فوج کو شروع میں جو کامیابی ملی اس میں فوج کی چالاکی اور بہادری کے علاوہ ان چودہ ننوں کا دخل بھی تھا جو ”فرانسکن مشینریز آف میری“کی تبلیغی تنظیم سے تعلق رکھتی تھیں۔

ان میں ہر نسل کی رہبائیں تھیں۔فرانس،سپین،سکاٹ لینڈ اور پرتگال سے انکا تعلق تھا۔سری نگر سے صرف تیس میل کے فاصلے پر بارہ مولا میں انکا ہسپتال تھا۔پٹھان مجاہدوں کو جس وقت سری نگر کے ہوائی اڈے پر اور کشمیر کی راجدانی کی اہم سڑکوں پر ہونا چاہے تھا،اس وقت وہ بارہ مولا میں الجھے ہوئے تھے۔گرجا گھر کے چھوٹے ہسپتال کے تمام مریضیوں کو انہوں نے قتل کر دیا۔

انہوں نے راہباوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔گرجا گھر کی ہر ایک قیمتی چیز کو لوٹ لیا۔جس میں دروازے پر لگی ہوئی پتیل کی دستیاں بھی شامل تھیں۔ان کے اس گناہ کی سزایہ ملی کہ پاکستان کی نئی مملکت سے کشمیر کو ملحق کرنے کا محمد علی جناح کا خواب دفن ہو گیا۔“

قارئین!

پاکستان کے معروف مورخ و محقق زاہد چوہدری اپنی مرکہ آرا تصنیف ”پاکستان کی سیاسی تاریخ“کی جلد تین میں قبائلیوں کی یلغار کے بارے میں تفصیلی طور پر لکھتے ہیں۔

جس کاایک اقتباس ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔:”قبائلی لشکر نے بائیس اکتوبر کو مظفر آباد پر قبضہ کیا تو اس شہر میں تین دن تک ہندوں اور سکھوں کا قتل عام ہوتا رہا۔قبائلیوں نے بلا امتیاز غیر مسلموں کو قتل کرنے کا علاوہ انکی بہت سی عورتوں کو اغوا کیا اور انکے گھروں کولوٹا۔“

سردار ابراہیم خان کا یہ خیال تھا کہ اس قتل عام اور لوٹ مار کی ذمہ داریوں خورشید انور پر ہی عائد ہوتی تھی۔جو قبائلیوں کے حملے کا انچارج تھا۔

لارڈ برڈوڈ کا بیان ہے کہ 26اکتوبر کو بارہ مولا میں قبائلیوں نے جو قتل عام کیا اور لوٹ مار مچائی اس کی ذمہ داری بھی خورشید انور پر عائد ہوتی ہے۔

لیکن کیسی ایک فر د واحد کو اس ساری گھناونی کاروائی کا ذمہ دار ٹھہرنا درست نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسعود اور آفریدی قبائلیوں نے محض اسلامی جذبے کے تحت کشمیر پر حملہ نہیں کیا تھا۔بلکہ ان کا بڑا مقصد لوٹ مار تھا۔

انہوں نے مظفر آباد اور بارہ مولا کے علاوہ میر پور،کوٹلی،پونچھ،نوشہرہ،اوڑی اور بھمبر کے قصبوں و دیہاتوں میں بھی بے محا با قتل و غارت،لوٹ مار،آتشزنی اور اغوا کی وارداتیں کی تھیں۔ان قبائلیوں میں نظم و ضبط کا نام و نشاں تک نہیں تھا۔

یہ بلکل بے مہار اور غیر منظم تھے۔ان سے حملہ کروانے سے پہلے ان کی تربیت و تنظیم کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔یہی وجہ ہے تھی کہ جب انہیں ہندوستان کی منظم اور تربیت یافتہ فوج کا سامنا کرنا پڑا تو یہ کیسی جگہ بھی کامیابی سے مزاحمت نہ کر سکے۔پاکستان کے ارباب اختیار نے اس قسم کے قبائلیوں کے کشمیر پر حملے کا غیر سرکاری طور پر انتظام کر کے بڑی کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کیاتھااور بعد میں اس کی سزا پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑی۔“پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے انکشاف کرتے ہوے کہا کہ ”نہ قائد اعظم کو اور نہ ہی مجھے کشمیر کو فتح کرنے کے لئے قبائلیوں کی تیاریوں کا کوئی علم تھا۔

مجھے صرف ایک دن لیاقت علی خان نے اس کی اطلاع دی۔ساتھ ہی لیاقت علی خان نے یہ بھی کہا کہ قائد اعظم کو اس بار ے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

“چوہدری محمد علی نے حیدر آباد اور کشمیر کے بارے میں یہ بھی انکشاف کیا کہ ”دسمبر 1947میں۔۔حقیقتا 22دسمبر 1947کو۔۔بھارت کشمیر کے بارے میں تصفیہ کرنے کے موڈ میں تھا۔

ان کی تجویز یہ تھی کہ اگر پاکستان حیدر آباد کو بھارت کے لیئے چھوڑ دینے پر رضا مند ہو جاء تو اس کے بدلے وہ کشمیر سے اپنے ہاتھ کھینچ لے گا۔ملک خضر حیات ٹوانہ نے اپنے ایک انٹریو میں کہا کہ ”قائد اعظم کو قبائلی یلغار کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا اور نہ نہیں بتایا گیا تھا۔“

کے ایچ خورشید کی کتاب میموریز آف جناح جسے خالد حسن نے مرتب کیا لکھا ہے کہ ”مہاراجہ ہری سنگھ بھارت اور پاکستان کے بارے میں شش و پنج میں مبتلا تھا۔فرقہ پرست ہندوں اور کانگریس کی سازشیں اس کے گرد گہری ہوتی جا رہی تھیں۔اس دوران پاکستان غیر منظم قبائلی لشکروں نے کشمیر پر دھاوا بول دیا۔

اس طرح معائدہ جاریہ کی صریح خلاف ورزی کی گئی جو حکومت پاکستان اور مہاراجہ ہری سنگھ کے درمیان عمل میں آیا تھا۔اس طرح کشمیر کی قسمت پر ڈاٹ لگا دی گئی۔“

فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کے اردو ایڈیشن میں سعید سہردردی لکھتے ہیں کہ:”27اکتوبر،دو شنبہ کی صبح سری نگر کے ویران اور سنسنان ہوائی اڈے پر گڑگڑاہٹ کے ساتھ 9ڈی سی۔3(DC-3) ہوائی جہاز اترے اور انہوں نے فرسٹ سکھ رجمنٹ کے 329سکھوں کو آٹھ ٹن اسلحہ کے ساتھ کشمیر پہنچا دیا۔

یہ پہلی قسط تھی۔اس ایک لاکھ ہندوستانی فوج کی جو اس حسین سرزمین پر تعنیات کی گئی تھی۔جی ایم میر کی کتاب ”کشور کشمیر“ میں ہے کہ”یہ بات قابل غور ہے کہ قبائلی لشکر 26اکتوبر تک وہاں رکے رہے اور اس دوران بھارتی افواج ہوائی جہازوں کے ذریعہ سری نگر میں اتر گئیں۔

بعد میں جب جنرل طارق نے اس بارے میں دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ قبائلی لشکر کا سپہ سالار میجر خورشید انور،جسے حکومت پاکستان نے اس عہدے پر فائز کیا تھا،دو دن بارہ مولا میں اس لئے رکا رہا کہ سردار ابراہیم خان صدر آزاد کشمیرحکومت آئیں اور میجر خورشید انور کو بتائیں کہ کشمیر کی حکومت میں اس کی کیا پوزیشن ہو گئی۔“

:قارئین! ایک مشہور مغربی مصنف لارڈ بروڈوڈ نے اس صورتحال کو ان الفاظ میں قلمبند کیا

”حقائق کی تلاش کرنے والے کسی بھی شخص کو حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیر کے ساتھ کسی بھی اعلی سطحی مذکرات کی کوشش کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

در حقیقت حکومت پاکستان مہاراجہ کشمیر پر اقتصادی دباو بڑھا کر اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔،یہ سوچے بغیر کے اس قسم کے دباو کے اثرات خود اسکے (پاکستاان) کے خلاف جا سکتے ہیں۔“

رابرٹ ورسنگ ایک اعلی پاکستانی فوجی افسر جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا،سے جون 1986میں لے گئے انٹرویو کو اپنی معروف کتاب ”انڈیا پاکستان اینڈ کشمیر ڈسپیوٹ“ میں مرقوم کرتے ہیں کہ

”بنیادی طور پر کشمیر کا مسئلہ مہاراجہ کشمیر یا بھارت نے نہیں،بلکہ پاکستانی لیڈروں کی اپنی حماقت سے پیدا ہو گیا تھا۔وادی کے اندر خفیہ کاروائیوں،سپلائیز کی ترسیل میں رکاوٹ،اور پاکستان کی طرف سے ہندو اور سکھ تارکین وطن کو کشمیر کے اندر دھکیلنے کی کاروائی سے قبل از وقت کشمیر کا مسئلہ کھڑا کر کے بھارت کی مداخلت کا موقعہ فراہم کیا گیا۔“

جسٹس یوسف صراف میجر اے ایس بی شاہ کے مشن کا ذکر اپنی کتاب میں ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ”حکومت پاکستان نے اپنے ایک نااہل بیوروکریٹ میجر اے ایس بی شاہ کو سری نگر بھیجا کہ مہاراجہ کو پاکستان سے الحاق کرنے پر آمادہ کرے۔وہ کشمیر کی سیاسیات اور اس کی باریکیوں سے بالکل ناواقف تھا۔جسٹس مہر چند مہاجن،وی پی مین،اور گوپا لاسوامی جیسے اعلی دانشور سے معاملات طے کرنے کے لئیے میجر شاہ کو بھیجنا ناقابل فہم تھا۔

مہر چند مہاجن نے میجر شاہ کے بارے میں لکھا کہ میجر شاہ لاہور میں میرے سابق چیف جسٹس کا داماد اور اب حکومت پاکستان میں سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھا۔وہ ایک ہاتھ میں کوڑااور دوسرے ہاتھ میں الحاق کی دستاویز لے کر سری نگر پہنچا تھا۔میجر شاہ سری نگر سے جاتے وقت یہ دھمکی دے گیا کہ ہزہائی نس کو جلد ہی اپنی حماقت پرپچتھانا پڑے گا۔“

قانون آزادی ہند کے تحت ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں یہ طے تھا کہ ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں والیان ریاست فیصلہ کریں گئے۔انہیں یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو دونوں نو آزادمملکتوں بھارت یا پاکستان میں سے کیسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔یا چاہیں تو اپنی خود مختاری کا اعلان کر یں۔

مہاراجہ کشمیر اور ریاست جموں و کشمیر کی دونوں سیاسی جماعتیں نیشنل کانگریس اور مسلم کانفرنس آزادی کی طالب گار تھیں (ان دونوں کے مطالبات گذشتہ سطور میں بیان کئے جا چکے ہیں)۔

ان دونوں جماعتوں نے ریاست کی آزادی کی جدوجہد کی لیکن عین فیصلے کے وقت یہ ناداں گر گے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔چند لحموں کی سزا اب کشمیری صدیوں کی گھڑی میں بھگت رہے ہیں۔شیخ عبداللہ بھارت اور مسلم کانفرنس پاکستان کی گود میں کود کر بیٹھ گئیں۔

جہاں تک مہاراجہ کا تعلق ہے وہ ہمارے سامنے ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ محب االوطن تھا۔وہ ہر صورت میں ریاست کو آزاد و خو د مختار ریاست کے طور پر دیکھنے کا خوہاں تھا۔وہ بھارت سے الحاق کے سخت مخالف تھا۔اس نے بھارتی حکومت اور سیاسی طاقتوں کا جرت مندی کے ساتھ مقابلہ کیا۔اور کیسی صورت میں بھی الحاق پر رضا مند نہ ہوا۔

قارین! نہرو نے ریاست میں آ کر ہری سنگھ کو الحاق ہند کے لے آمادہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے خبردار کیا کہ اگر نہرو نے سری نگر جانے کی ضد نہ چھوڑی تو ہری سنگھ انہیں گرفتار کر لے گا۔اور کل جب مجھ سے انھیں ہندوستان کے وزیر اعظم کا چارج لینا ہو گا تو وہ سری نگر کی جیل میں پڑے ہوں گئے۔

مہاراجہ نے نہرو کو تھپڑ وں کے ساتھ گرفتار کر دیا۔کشمیر پر قبائلی لشکر کی ظالمانہ و درد ناک لشکر کی یلغار اور جموں کشمیر کو اپنے ہاتھوں سے قبائلیوں کے ہاتھوں چھینتا دیکھ کر اور جان کے خوف وڈر کی وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ 25,26اکتوبر کی درمیانی رات کو دارلحکومت سری نگر سے بھاگ کر جموں چلا گیا۔

جہاں سے اس نے 26اکتوبر کو بھارتی نمائندے وی پی مینن کے ہاتھ لارڈ ماونٹ بیٹن وائسراے ہند کو ایک مفصل خط ارسال کیا۔

جس کا متن پیش خدمت ہے۔”میں ابھی تک ریاست کو ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ شامل کرنے یا سے آزاد رکھنے کے بارے فیصلہ نہیں کر سکا تھا کہ اچانک سرحد کے قبائلیوں نے میری ریاست میں داخل ہو کر قتل عام شروع کر دیا جس سے میری فوجیں منتشر ہو گئیں۔

اس لئے میں اپنی ریاست کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے آپ سے مدد مانگ رہا ہوں۔اور ساتھ الحاق کے کاغذات ارسال کر رہا ہوں۔وی پی مینن یہ خط لے کر دہلی گیا۔لارڈ ماونٹ بیٹن،پنڈت لعل نہرو،سردار ولبھ بھائی پیٹل، اور شیخ عبداللہ نے اس الحاق کے معاملے میں غور کیا۔اور باہمی اتفاق رائے سے 27اکتوبر کو دورباہ وی پی مینن کے ہاتھ بھجیا جس میں لکھا تھا کہ

”میری حکومت نے آپ کی ریاست کا الحاق ہمدوستان سے منظور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔تاہم میری حکومت چاہتی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں نظم و نسق کی بحالی اور ریاست سے حملہ آوروں کو نکال لینے کے بعد الحاق کا فیصلہ عوام کی مرضی پر چھوڑا جائے گا۔

“قارئین! کارڈ ماونٹ بیٹن نے اس خط کے ساتھ ہی فوجیں سری نگر کی طرف روانہ کر دیں۔27 اکتوبرپاکستانی حکومت کی آشیر آباد،سازش،مداخلت اور مزموم چالاک اور قبائیلوں کے کشمیر پر حملہ میں پہل کے بعد 27اکتوبر کو بھارتی فوجوں نے اپنے ناپاک قدم سری نگر کے ہوائی اڈے پر رکھے۔

لیکن تاریخ اور حق و سچ کے تمام حقائق نے آج سب پر یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی حکومت،سیاستدانوں نے قبائلیوں کو لالچ دے کر اور جہاد کے نام پر اشتعال دے کر جموں کشمیر میں فسادات کو ہوا دی۔عوام کا قتل عام کیا۔

عالمی حالات و واقعات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں ریاست کا منظر بھی اب بدلنا چاہیئے۔ان بدلتے ہوئے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری ریاست جموں و کشمیر میں بحالی وحدت و مکمل آزادی کے لئیے اپنے فکر و عمل کو درست سمت اور درست قومی بیانہ پر لایا جائے تبی اس مسلہ کو دنیا حقیقت کی نظر سے دیکھے گی۔ توڑ دے یا رب اس دست جفا کش کو۔جس نے روح آزادی جموں کشمیر کو پامال کیا(ختم شد)

Exit mobile version