عمران خان کی گرفتاری اور جیل کی سزا پر ملک بھر میں کہیں بھی بھرپور احتجاج نہ ہوا۔ جہاں بھی تھوڑے بہت اکٹھے ہوئے وہیں، پولیس پہنچی اور انہیں ریاستی تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اٹک قلعہ میں عمران خان کو بند کر کے موجودہ شہباز شریف الائنس حکومت نے یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ اگلے انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں گے، یعنی انتخابات اگلے 3 ماہ کے دوران نہ ہوں گے۔ جس دن پٹرول اور ڈیزل کو 20 روپے لیٹر بڑھایا گیا تھا، اسی روز واضح ہو گیا تھا کہ ابھی انتخابات فوری طور پر نہیں ہونے والے۔
یوں 9 اگست کو اسمبلیاں کی مدت ختم کر کے جو نگران حکومت آئے گی، وہ بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا نگران حکومتوں کی طرح تین ماہ کے لئے نہیں بلکہ مزید کچھ عرصہ اقتدار میں رہے گی۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ جو گندے کام اگلی منتخب حکومت نے کرنے تھے وہ ان کے اقتدار سے پہلے ہی فیڈرل نگران حکومت کر لے۔ اسی لئے موجودہ پارلیمنٹ نے تیز ترین قانون سازی کے عمل کے ذریعے نگران حکومت کو کلیدی معاشی فیصلے کرنے کا ”آئینی“ حق بھی تفویض کر دیا تھا۔
یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ عمران خان کی پارٹی کو ریاست مکمل طور پر اپنے شکنجے میں لے چکی تھی۔ کوئی موثر اپوزیشن موجود نہیں ہے۔ 9 مئی کے ریاستی تشدد کے بعد تحریک انصاف تتر بتر ہو چکی تھی اور آدھی سے زیادہ قیادت نے پارٹی چھوڑ دی۔ تحریک انصاف کی حقیقت 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد ہی سامنے آئی، اس کے غبارے سے ہوا تیزی سے خارج ہوئی۔ اس کا جو قد مصنوعی طور پر بڑھا ہوا تھا وہ بھی اپنی اصلی جگہ پر آ گیا، جو سوشل میڈیا نے اس کی ہوا باندھی ہوئی تھی وہ بہت تیزی سے خارج ہوئی۔
عمران خان کی تمام تر سیاسی بڑھک بازی بے نقاب ہو گئی۔ وہ سمجھتے تھے کہ میں جو بھی کہ دوں وہ ٹھیک ہے، مگر سیاسی تھپیڑے بے رحم ہوتے ہیں خاص طور پر جب ریاست چانٹے لگا رہی ہو۔ 9 مئی سے 5 اگست تک ریاست یہ جان چکی تھی کہ جو کچھ اس نے اس پارٹی کے ساتھ کیا ہے، اس کے بعدعمران خان کو گرفتار کرنا آسان ہو گا اور 9 مئی دھرایا نہ جا سکے گا۔ اسی لئے جج کے فیصلے سے قبل ہی گرفتاری کے تمام تر انتظامات مکمل تھے۔
ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ تحریک انصاف تحریک استقلال بننے جا رہی ہے، مگر شائد عمران خان اصغر خان نہ بن سکے۔ عمران خان کی داستان ایک بگڑے، مغرور، انا پرست رائٹ ونگ سیاست دان کے عروج و زوال کی ایک دکھ بھری داستان ہے۔
عمران خان پاکستانی سیاسی تاریخ کے سب سے زیادہ بے وقوف رہنما ثابت ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف 9 مئی تک ہمیشہ آگے بڑھ کر سیاسی حملے کرتی تھی اب مسلسل دفاعی پوزیشن پر ہے۔ روزانہ اسے اپنے کسی سابقہ لیڈر کے بیان کی تردید اور صفائیاں دینی پڑتی ہیں۔
کبھی شبر زیدی، کبھی پرویز خٹک اور کبھی محمود خان ان پر الزامات لگا رہے ہیں۔ پنجاب میں ان کا ”وسیم اکرم“ عثمان بزدار بھاگا ہوا ہے اور اب تحریک انصاف نے اس کو باضابطہ پارٹی سے نکال دیا ہے۔ عمران خان کی سیاسی نااہلی کا ایک بڑا ثبوت عثمان بزدار کی وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزدگی اور اس کا مسلسل دفاع تھا۔
پنجاب سے روزانہ تحریک انصاف کا کوئی نہ کوئی استعفیٰ آ رہا ہے، جبکہ پنجاب سے اس کے سابقہ صوبائی اسمبلی ممبران کو پارٹی سے باضابطہ نکالے جانے کا سلسلہ بھی مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
جنوری 2023ء میں پنجاب کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے عمران خان کے دباؤ پر جب اسمبلی توڑی تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی چلا رہے ہیں۔ عمران خان پر فوری دوبارہ وزیر اعظم بننے کا بھوت سوار تھا۔ وہ اکتوبر تک انتظار کرنے پر رضامند نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کے پی اور پنجاب اسمبلی توڑنے پر تین ماہ کے اندر عام انتخابات ہوں گے اور وہ دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔
انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ 2018ء میں بھی انہیں وزیر اعظم عوام نے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے بنوایا تھا، مگر اقتدار کے نشہ میں وہ سب کچھ بھول بھال کے ایک دفعہ پھر وزیر اعظم بننے کی تیاریوں میں تھے۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن گھاگ، چالاک اور مکار سیاست دانوں کی جماعتیں ہیں۔ ایک دفعہ ان کے پاس اقتدار آ گیا تو پھر وہ پورا زور لگائیں گی کہ عمران خان کا مکو ٹھپ دیا جائے اور یہی کچھ انہوں نے کیا۔ ریاست بھی کھل کر ان کا ساتھ دے رہی تھی۔
عمران خان کی اپنی بے وقوفانہ حکمت عملی کے باعث تحریک انصاف نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن رہنما کی سیٹ بھی کھو دی، کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومتیں ختم کر دیں۔
عمران خان کی 8 مئی کو پہلی گرفتاری کے موقع جو پر تشدد ردعمل ہوا، وہ ان کی سیاسی امیچورٹی کا اظہار تھا۔ ریاست ایسے ہی کسی بہانے کی تلاش میں تھی اور انہوں نے حب الوطنی کا خوب شور مچا کر عمران خان کی تبدیلی کی سیاست کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اب تقریبا تین ماہ بعد عمران خان کی گرفتاری اور سزا تحریک انصاف کے اندرونی بحران کو اور زیادہ تیز کرے گی۔ تحریک انصاف پارٹی عمران خان کی وجہ سے زندہ تھی انہی کی وجہ سے ہی دم توڑ رہی ہے۔ پارٹی مکمل طور پر پسپائی کا شکار ہے۔
یہ سب کچھ عمران خان کی ہٹ دھرمی، غرور، میں میں، بے صبری اور غلط حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے کہ ریاست کے جبر نے پارٹی تتر بتر کر دی۔ عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ سیاسی بڑھکوں کا برا نتیجہ پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔ سرمایہ درانہ بنیادوں پر عمران خان ایک بے وقوف سیاسی راہنما ثابت ہوئے ہیں۔