بلوچ وائس فار جسٹس کی جانب سے جاری بیان میں معروف ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ و قانون دان ایمان زینب مزاری اور پشتون حقوق کے علمبردار علی وزیر سمیت دیگر درجنوں پشتون سیاسی کارکنوں کی گرفتاری اور دہشت گردی کے مقدمات درج کرنے کی سخت الفاظ سے مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوقِ کو مکمل طور پر سلب کیا گیا ہے اور سیاسی سرگرمیوں پر بھی غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایمان مزاری ایک وکیل ہونے کے ساتھ ایک انسانی حقوق ایکٹوسٹ ہے جو غیر قانونی جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اُٹھاتی ہے، اُن کی لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز بننا مقتدر حلقوں کو ناگوار گزری ہے جس کی سزا انہیں دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث کرکے دی جارہی ہے تاکہ اِس طرح اُن کی زبانی بندی کی جاسکے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اُٹھانے سے انہیں روکا جاسکے۔ پرامن سیاسی، جمہوری طریقوں سے انسانی حقوق کے لئے بلند ہونے والی آوازوں کو طاقت و جبر سے دبانے و خاموش کرنے سے نفرتوں اور اشتعال میں مزید اضافہ ہوگا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ کئی عرصے سے سابق ایم این اے علی وزیر کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، نام نہاد جمہوری دور میں بھی وہ قومی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے بھی زیادہ عرصہ جیل میں گزاری، پاکستان میں اظہار رائے پر پابندی کا اندازہ اس بات سے لگائیں ایک سیاسی کارکن، سابق ایم این اے اور ایک وکیل و انسانی حقوق کے کارکن کے ساتھ کس طرح کا رویہ روا رکھا گیا ہے پھر عام سیاسی کارکنوں کو کس طرح کی اذیتوں اور سخیتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ وائس فار جسٹس ایمان مزاری اور علی وزیر پر قائم مقدمات ختم کرنے اور ان کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کرتی ہیں۔