پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر راولاکوٹ سے 9مئی کو شروع ہونے والا احتجاج نہ صرف جموں کشمیر کے 10اضلاع تک پھیل چکا ہے، بلکہ وہ اس خطے کی سرحدیں پھلانگتے ہوئے پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں تک پھیلتا جا رہا ہے۔ مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے، ہڑتالیں اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے دفاتر پر حملوں کی صورت میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق35000میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔تاہم ضرورت بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔ موسمی حالات میں تبدیلیوں کے باعث8ہزار سے 23ہزار میگاواٹ تک ضرورت رہتی ہے۔ بجلی کی پیدوار میں اضافہ ہر 10سال بعد بجلی کی ضرورت میں 50فیصد تک اضافے کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا۔ تاہم معاشی بحران کی وجہ سے صنعتی سرگرمیوں میں کمی اور معیشت کی شرح نمو میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے بجلی کی مانگ میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ یوں پیداواری صلاحیت زیادہ اور ضرورت کم ہو گئی۔
بجلی کی اس اضافی پیداوار کا بڑا حصہ انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس(آئی پی پیز) جیسے نجی منصوبوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ 1996ء میں بینظیر حکومت نے ان نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ ابتدائی معاہدے کئے تھے۔ اس کے بعد آنے والی تقریباً ہر جمہوری و غیر جمہوری حکومت نے انہی معاہدوں اور شرائط کو جاری رکھتے ہوئے نئے پلانٹس لگانے کی منظوریاں دی ہیں۔
ان پاور کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں میں حکومت نے انہیں یقین دہانی کروائی کے ان کی پیداکردہ بجلی صرف حکومت خریدے گی اور اگر حکومت بجلی کسی وجہ سے بھی ان سے نہیں خریدتی تو ان کی پیداواری صلاحیت کے 70فیصد کے برابر ادائیگی کی جائے گی۔ ان کمپنیوں کا زیادہ حصہ تیل، گیس اور کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کر رہا ہے۔معاہدوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کمپنیوں کو تیل اور گیس مارکیٹ سے سستا مہیا کیا جائیگا۔ حکومت ان آئی پی پیز کو تمام تر ادائیگیاں امریکی کرنسی ڈالر میں کرنے کی بھی پابند ہے۔ یوں جو بجلی یہ کمپنیاں پیدا ہی نہیں کرتیں، اس کیلئے ان کو ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔
حکمرانوں نے بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے آئی پی پیز کے قیام کا راستہ تو ہموار کیا، لیکن بجلی کی ترسیل کا ڈھانچہ بہتر کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان میں بجلی کے ترسیلی ڈھانچے میں 22ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی ایک ہی وقت میں ترسیل کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔ ضرورت اگر22ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر جائے تو لوڈشیڈنگ کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
بوسیدہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے لائن لاسز میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ صنعتکاروں، جاگیرداروں اور دیگر طاقتور حلقوں کی لوٹ ماراور ریاستی رٹ کی محدودیت کی وجہ سے بجلی چوری بھی نقصانات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس طرح مجموعی طو رپر 1100ارب روپے سے زائد کانقصان ہوتا ہے۔ یوں آئی پی پیز کے بجلی پیدا کئے بغیر واجب الادہ واجبات سمیت بوسیدہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہونے والے لائن لاسز اور بجلی چوری کی وجہ سے ہونے والے نقصانات گردشی قرضوں کی صورت میں اپنا اظہار کرتے ہیں۔ یہ گردشی قرضے 3500ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔
پاکستان میں استعمال ہونے والی50فیصد بجلی کے گھریلو صارفین اور 50فیصد تجارتی اور صنعتی صارفین ہیں۔ تجارتی اور صنعتی صارفین کو بھی اگر الگ کیا جائے گا، چھوٹے تجارتی صارفین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، صنعتی صارفین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں بجلی کی قیمتوں میں یکساں سلیب سسٹم ٹیرف کے نفاذ کے بعد حکومت نے عالمی سامراجی ادارے آئی ایم ایف کی ایماء پر تمام تر معاشی بحران کا بوجھ اکثریتی غریب عوام کندھوں پر لاد دیا ہے۔
بات صرف بجلی کی زائدپیداواری صلاحیت، چوری اور لائن لاسز کی قیمت چکانے تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ انکم ٹیکس جمع کرنے میں ناکام ریاست نے بجلی کے بلوں کو ہی انکم ٹیکس جمع کرنے کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے۔ پی ٹی وی،ریڈیو سمیت دیگر اداروں کے خساروں کا بوجھ بھی بجلی صارفین پر لاددیا گیا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس سمیت مختلف طرح کے ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی ان بلوں میں شامل کئے گئے ہیں۔ یوں ان ٹیکسوں کی شرح تقریباً استعمال شدہ بجلی کے 100فیصد کے برابر ہے۔ بجلی کی قیمتیں الگ سے ایک پیچیدہ ٹیرف کے ذریعے مقرر کی گئی ہیں۔ تیز میٹر لگا ئے جاتے ہیں، جو ایک یونٹ بجلی استعمال کرنے کے دوران تین سے چار یونٹوں کے برابر چل جاتا ہے۔اس طرح اس پیچیدہ ٹیرف کے تحت ایک بار اگر کسی صارف نے200یونٹ سے زائد بجلی استعمال کر دی تو اسے اگلے کم از کم 6ماہ تک 21روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت ادا کرنے ہوگی۔ٹیرف کے نام پر یہ ظلم بجلی کی قیمت40روپے فی یونٹ تک پہنچاتا ہے۔ اس قیمت پر پھر سوفیصد ٹیکس عائد کئے جاتے ہیں۔
اس طرح سامراجی اداروں اور حکمران طبقات کی پالیسیوں کے تحت پاکستان کے 80فیصد سے زائد انسانوں کے پاس روٹی اور بجلی میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنے کی نوبت پہنچ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر سیاست کی بے حسی کے باوجود عوام خود رو انداز میں احتجاج کر رہے ہیں، بل جمع کروانے سے انکار کر رہے ہیں اور احتجاج کا یہ سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔