افغان طالبان نے ایک امریکی خاتون سمیت بین الاقوامی این جی او کے کم از کم 18 افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جن پر افغانستان میں مسیحیت کی تبلیغ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’دی انٹرنیشنل اسسٹنس مشن‘ (آئی اے ایم) نے تصدیق کی ہے کہ اس کے عملے کو وسطی افغانستان کے صوبہ غور میں واقع اس کے دفتر سے حراست میں لے کر دارالحکومت کابل لے جایا گیا۔
صوبے کے ایک حکومتی ترجمان عبدالواحد حماس غوری نے اے ایف پی کو بتایا کہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس فورسز کچھ عرصے سے اس گروپ پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔ انہوں نے مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ ’دستاویزات اور آڈیوز حاصل کی گئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ 21 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں ایک امریکی خاتون بھی شامل ہے۔ آئی اے ایم نے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ 18 افراد بشمول ایک ’غیر ملکی‘ کو حراست میں لیا گیا ہے اور اسے الزامات کی نوعیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
امریکی خاتون اور دو افغان شہریوں کو سب سے پہلے تین ستمبر کو حراست میں لیا گیا، اس کے بعد بدھ کو مزید 15 افغان ملازمین کو حراست میں لیا گیا۔
آئی اے ایم کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ تنظیم کی بنیاد مسیحی اقدار پر رکھی گئی ہے، لیکن یہ سیاسی یا مذہبی عقیدے کے مطابق امداد فراہم نہیں کرتی ہے۔
سوئس رجسٹرڈ گروپ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’ہم مقامی رسم و رواج اور ثقافتوں کی قدر اور احترام کرتے ہیں۔‘ آئی اے ایم 1996 سے افغانستان میں کام کر رہی ہے۔ پہلے اس نے آنکھوں کی دیکھ بھال میں مہارت حاصل کی اور بعد ازاں اس کی صحت اور تعلیم کے دیگر شعبوں میں شاخیں بن گئیں۔ 2010
سال 2010 میں آٹھ غیر ملکیوں سمیت آئی اے ایم کے طبی عملے کے 10 افراد کو دور افتادہ شمالی افغانستان میں ایک حملے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے کہا تھا کہ یہ ممکنہ طور پر ڈکیتی تھی۔ تاہم دو عسکریت پسند گروپوں نے ذمہ داری قبول کی، جن میں طالبان رہنما بھی شامل تھے جنہوں نے کہا تھا کہ طبی عملے کے لوگ مسیحی مشنری تھے اور ان پر فوجی جاسوس کے طور پر کام کرنے کا الزام لگایا۔
اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے کئی مغربی باشندوں سمیت درجنوں غیر ملکیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ طالبان نے ملک پر کافی پابندیاں عائد کر دی ہیں جو ان کے بقول اسلامی شرعی قانون کی تشریح کے مطابق ہیں۔ ان پابندیوں میں خواتین کو این جی اوز اور اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے سے روکنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ نوعمر لڑکیوں اور خواتین پر سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے پر بھی پابندی عائد ہے۔