پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے حکمران آج تک محنت کشوں اور نوجوانوں کا کوئی ایک بھی بنیادی تو مسئلہ حل نہیں کر سکا،لیکن مسائل کو پیدا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔مفت تعلیم،علاج، انفراسٹرکچر کی تعمیر سمیت روزگار کی فراہمی میں ناکام حکمران تمام مسائل کا ذمہ دار سرکاری ملازمین کو قرار دیتے ہیں۔حکومت کی طرف سے سپیشل پاور ایکٹ کے ذریعے سرکاری ملازمین کو تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔نیا روزگار پیدا کرنے کی بجائے پہلے سے برسر روزگار نوجوانوں کو روزگار سے برطرف کر کے بیروزگار نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
27وزراء کی فوج کی بنیاد پر قائم حکومت میرٹ کے نام پر کئی سالوں سے کام کرنے والے ہزاروں عارضی ملازمین کو برطرف کر کے مقابلے کے امتحانات کا اعلان کر رہی ہے۔30 نومبر کے بعد عارضی ملازمین کی توسیع اور تنخواہ بند کر دی گئی ہے،اور محنت کشوں کو ملازمت سے جبری برطرف کیا جا رہا ہے۔
جموں کشمیر میں گزشتہ لمبے عرصے سے زیادہ تر تقرریاں عارضی بنیادوں پر ہی کی جاتی رہی ہیں۔ تین اور چھ مہینوں کے کنٹریکٹ کر کے ملازمین کے سر پر بے روزگاری کی تلوار لٹکائی جاتی ہے،تاکہ وہ خوف کی وجہ سے اپنے حق کے لیے بولنے سے باز رہیں۔ کنڑیکٹ ملازمین کو 15 سے 20 سال ملازمت کے بعد بغیر پنشن اور دیگر مراعات کے ملازمت سے برطرف کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ محنت کشوں کی طرف سے معمولی اُجرت پر زندگی بھر خون پسینہ نچوڑنے کے بعدجب وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہے،تو انہیں بڑھاپے میں بیماری اور بھوک کی حالت میں سسک سسک کر، تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے بے آسرا چھوڑا جا رہا ہے۔
اس خطہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے تین مہینوں بعد 28 اکتوبر کو کابینہ کے اجلاس میں ایڈہاک ملازمین کو مستقل کرنے والے قانون کے خاتمے کا اعلان کیا،جس کے نتیجے میں 4 ہزار سے زائد ملازمین کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایڈہاک ایکٹ مسلم لیگ نواز نے اپنے اقتدار کے آخری سال منظور کیا تھا، جس کے مطابق تمام عارضی ملازمین کو مستقل کردیا گیا تھا اور ایڈہاک تقرریوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔مسلم لیگ نواز نے بھی ایڈھاک ملازمین کو مستقل انتخابی فائدے کے لیے کیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بظاہراس ایکٹ کو میرٹ کی بحالی کے لیے ختم کیا،لیکن اس کے پس پردہ وہی مقاصد تھے جو گزشتہ حکومتوں کے رہے ہیں۔ اس ایکٹ کا خاتمہ کر کہ حکومت نے مستقل ہونے والے ملازمین سے مستقل روزگار کا حق چھین لیا لیکن ایڈہاک تقرریوں کی پالیسی پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ حکومت نے اپنے من پسند افرد کی ایڈہاک تقرریاں جاری رکھیں۔
اس خطہ میں حکومتوں کی ذمہ داری تمام شہریوں کو روزگار فراہم کرنا نہیں بلکہ اپنی اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی مخصوص تعداد کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ ان کے نزدیک جس کا برسر اقتدار پارٹی سے تعلق نہیں وہ کام کے اہل ہی نہیں ہے، اسے ملازمت سے برطرف کر دینا چاہیے۔ اس خطے کی طفیلی حکمران اشرافیہ یہاں کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔
ریاست 10 فیصد لوگوں کو بھی روزگار فراہم نہیں کر سکی ہے۔ یہاں کوئی پیداواری شعبہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ سروسز کا واحد شعبہ ہے جس سے ایک لاکھ افراد وابستہ ہیں۔ اس خطے کی معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرون ممالک میں موجود محنت کشوں کی طرف سے بھیجے گئے زر مبادلہ پر ہے۔ 46 لاکھ کی آبادی میں ایک لاکھ ملازمتیں ہیں، جن پر مقامی اشرافیہ کے تمام افرد اپنے قریبی افراد کوایڈجسٹ کرنے کے لیے زور آزمائی کرتے ہیں۔ نیا روزگار پیدا کرنے کے حوالے سے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے ایڈہاک ملازمین میرٹ پر پورا نہیں اترتے ہیں۔اگر میرٹ پر پورا نہیں اترتے ہیں تو یونین سازی اور روزگار کی ضمانت کے بغیر اتنے طویل عرصے سے ان سے کیوں کام لیا جاتا رہا؟ ایڈہاک تقرریوں کی پالیسی اس اسمبلی میں موجود حکمرانوں بے بنائی ہیں یا ملازمین نے؟ میرٹ کا شور کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ طبقاتی نظام میں ہر انسان کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع نہیں ہوتے۔ایک محل اور جھونپڑی میں رہنے والے کا مقابلہ نہیں ہو سکتا ہے،جن کی خوراک اور تعلیم کا معیار مختلف ہوتا ہے، گھر کا ماحول مختلف ہوتا ہے۔شفاف مقابلے کے امتحان کے لیے بھی طبقاتی نظام کا خاتمہ ضروری ہے،جہاں انسانوں کو آگے بڑھنے کے برابر مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگرمحض تعلیم کو معیار مان لیا جائے تو بھی فرسودہ نظام تعلیم طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کی بجائے ان کو قتل کر رہا ہے۔ تعلیم کا عملی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ آدھی زندگی تھیوری پڑھنے کے بعد پھر سے اسی شعبے کا کام نئے سرے سے سیکھنا پڑتا ہے۔محض امتحانی نمبرات کو قابلیت کا معیار مان لیا جائے تو یہاں ہزاروں کی تعداد میں فلسفی،معیشت دان اور دیگرامور کے ماہرین پیدا ہوتے لیکن افسوسناک حقیت یہ ہے کہ یہ زیادہ نمبر لینے والے بھی اس نظام تعلیم میں الفاظ کو معنی و مفہوم کے بغیر یاد کرنے والے روبوٹ ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کشوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے اپنی محنت بیچنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ محنت نہ بکے اور روزگار نہ ملے تو زندگی قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ آج نوجوانوں اور محنت کشوں کی زندگی کے تمام راستے بند کیے جارہے ہیں۔ روزگار ہر انسان کا بنیادی حق ہے،جسے ریاستی آئین میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ روزگار فراہم کرنے کی بجائے پہلے سے موجود روزگار کو چھین کر میرٹ کی بحالی کا واویلا کرنا حکمران طبقے کی مکاری پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ حکمران طبقہ بیروزگا نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے میں ناکامی کو چھپانے کیلئے میرٹ اور قابلیت کا شور کرتا ہے، تاکہ ان بے روزگاروں کو یہ باور کروایا جائے کہ آپ کی بے روزگاری کا ذمہ رار یہ نظام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ریاست ہے بلکہ جو پہلے سے برسر روزگار افرد ہیں وہ آپ کی بے روزگاری کے ذمہ دار ہیں۔
کیا اس خطے کے وہ نوجوان میرٹ پر پورا نہیں اترتے جو ساری دنیا میں اپنی محنت بیچ رہے ہیں اور عرب کے تپتے صحرا میں جل رہے ہیں۔ بے روزگاری کی ذلت سے تنگ آ کر جو غیر قانونی یورپ جانے کی کوشش میں انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔جو سرحد عبور کرتے ہوئے گولی کا نشانہ بن کر یا کسی کشتی کے ڈوبنے سے جینے کے لیے مر جاتے ہیں۔
تمام عارضی ملازمین کو حکمرانوں کے اس پروپیگنڈے کو مسترد کرنا ہو گا کہ عارضی ملازمین روزگار کے اہل نہیں ہیں۔نا اہل محنت کش نہیں ہیں،یہ حکمران ہیں جو تمام نوجوانوں کے لیے روزگار مہیا نہیں کر سکتے ہیں۔4 ہزار خالی اسامیوں پر 40 ہزار بے روزگار نوجوانوں کا مقابلہ کروایا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں 36ہزار نوجوان جس کو روزگار نہیں ملا وہ نا اہل ہیں۔مستقل روزگار حق ہے،جس کے لیے عارضی ملازمین کو مستقل روزگار اور بیروزگار نوجوانوں کے لیے روزگار یا بے روزگاری الاؤنس کی جدوجہد کرنی ہو گی۔اگر عارضی ملازمین حکمرانوں اور افسر شاہی سے تعلقات کے بھروسے پر انتظار کرتے ہیں تو شکست انکا مقدر ہوگی۔محنت کشوں کے اتحاد اور احتجاج میں وہ طاقت ہے جس کے ذریعے حکمرانوں کے حملے سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔