سپریم کورٹ کی طرف سے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دئیے جانے کے فیصلے کو ایک ماہ ہونے کے باوجود تاحال ملزمان فوج کی تحویل میں۔
ارزھم جنید، جو کہ پچیس مئی سے فوج کی تحویل میں ہیں، ان کے والد جنید رزاق نے وائس پی کے کو اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے بیٹے تاحال فوج کی تحویل میں ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ کورٹ کے آرڈر کی توہین ہے۔ان کو چاہیا تھا کہ ان کی کسٹڈی سول اداروں کو کرتے ۔ایک ماہ گزر گیا ہے لیکن انہوں نے آرڈر کی تکمیل نہیں میں نے لاہور ہائیکورٹ میں اس کے خلاف پٹیشن دائر کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کا ٦ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کردی فیصلہ میں آرمی ایکٹ کی سیکشن ٹو ون ڈی کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دیا۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر قانون دان حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جان بوجھ کر عمل نہیں کیا جارہا ۔ فیصلہ اپنی جگہ پر موجود ہے فیصلے کے بعد سویلنز کو فوج کی تحویل میں رکھنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا تحریک انصاف توہین عدالت کی کاروائی کے لئے درخواست دائر کرے گی حامد خان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ابھی غور کیا جا رہا ہے اور جلد ہی پارٹی یا فوجی تحویل میں موجود افراد کے اہلخانہ کی طرف سے اس طرح کی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام ١٠٣ افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا۔
فوجی قوانین کے ماہر وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم کا اس حوالے سے موقف سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے اس لئے گرفتار افراد کو فوری طور پر پولیس کے حوالے کردینا چاہیا۔
اٹارنی جنرل آ ف پاکستان نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ایک سو تین افراد کو فوج کی تحویل میں دیا گیا۔
واضح رہے کہ تئیس اکتوبر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اب تک وفاقی حکومت اور تین صوبائی حکومتوں نے انٹر کورٹ اپیلیں دائر کر دی ہیں لیکن ابھی تک ان کو سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا گیا۔