المرساد کے مطابق یہ نیٹ ورک افغانستان میں شیعہ مسلم کمیونٹی پر ہونے والے کچھ حالیہ حملوں میں ملوث تھا۔ المرساد کی ذمہ داری ملک میں آئی ایس کے پی کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا اور اس گروپ کے خلاف طالبان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی اطلاع دینا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی سیکورٹی فورسز نے مبینہ طور پر ایران کے ساتھ سرحد کے قریب عسکریت پسند گروپ کے ٹھکانوں پر رات کو چھاپے مارے اور اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ایک کارکن کو ہلاک اور کچھ کو گرفتار کر لیا ہے۔
طالبان سے منسلک ایک میڈیا ہاؤس نے جمعے کے روز بتایا ہے کہ یہ داعش کی علاقائی شاخ کا ’اہم نیٹ ورک‘ ہے جسے اسلامک اسٹیٹ خراسان یا آئی ایس کے پی کہا جاتا ہے۔
المرساد کے مطابق یہ نیٹ ورک افغانستان میں شیعہ مسلم کمیونٹی پر ہونے والے کچھ حالیہ حملوں میں ملوث تھا۔ المرساد کی ذمہ داری ملک میں آئی ایس کے پی کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا اور اس گروپ کے خلاف طالبان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی اطلاع دینا ہے۔
المرساد نے گروپ کے لیے مقامی مخفف استعمال کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ ’’اسلامک اسٹیٹ خراسان ‘‘کے گرفتار کیے جانے والے کچھ ارکان انتہائی اہم ہیں۔
امریکہ نے حالیہ بیانات میں داعش کو علاقائی سلامتی کے لیے ایک نمایاں خطرہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ گروپ جلد ہی افغان اڈوں سے بین الاقوامی سطح پر حملہ کر سکتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کانگریس کو لکھے گئے خط میں ان خدشات کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی۔ بائیڈن نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ ’’امریکی فوجی اہلکار افغانستان سے باہر رہتے ہوئے بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ امریکی وطن اور امریکی مفادات کو درپیش خطرات سے نمٹ سکیں۔‘‘
امریکی خدشات
طالبان حکام نے امریکی خدشات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی سیکیورٹی فورسز نے اسلامک اسٹیٹ (خراسان) کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے تاکہ اسے افغانستان یا ملک کے باہر خطرہ بننے سے روکا جا سکے۔
المرساد نے حال ہی میں اس کی تفصیلات اور تصاویر شائع کیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ’’اسلامک اسٹیٹ خراسان سے وابستہ 12 اعلیٰ رہنما یا عہدے دار‘‘ تھے جنھیں اس سال طالبان کی خصوصی فورسز نے ہلاک کر دیا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے گزشتہ ہفتے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان نے افغان شہریوں خاص طور پر شیعہ برادری اور طالبان کے خلاف دہشت گرد حملے جاری رکھے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں ’اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ نے سرحد پار سے پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان میں حملے کیے اور مغرب پر حملہ کرنے کے عزائم کو برقرار رکھا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ’’اگرچہ طالبان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملے کرنے کے لیے افغانستان کی سر زمین کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ تاہم یہ غیر واضح ہے کہ طالبان کی القاعدہ کے عناصر، تحریک طالبان پاکستان، اور آئی ایس کے پی کی بیرونی کارروائیوں میں اضافے سے روکنے کی صلاحیت کیا رہی۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو افغان دارالحکومت کابل میں پناہ دینے کا معاملہ زیر تفتیش ہے۔
الظواہری 30 جولائی 2022 کو ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اسلام پسند طالبان نے اگست 2021 میں امریکی حمایت یافتہ حکومت سے اس وقت اقتدار حاصل کر لیا جب تمام امریکی اور نیٹو فوجی افغانستان سے واپس چلے گئے تھے۔