Site icon News Intervention

پاکستان میں 50 جعلی پائلٹس کے لائسنس منسوخ کردیے گئے

پاکستان کے وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ضروریات پر پورا اترنے کے لیے حکام نے تمام 860 کمرشل پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا اور جانچ پڑتال کے بعد ان میں سے صرف 50 کو منسوخ کیا۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق پائلٹ سید ثقلین حیدر جن کی اسناد جعلی ثابت ہوئی تھیں، کی دائر کردہ درخواست پر جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے رپورٹ جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ یہ پائلٹس قومی ایئرلائن سمیت پاکستانی نجی اور غیرملکی ایئرلائنز کے لیے کام کر رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ان پائلٹس کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے غیرمنصفانہ ذرائع سے لائسنسز حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

پس منظر بیان کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ 25 جنوری 2019 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نے پائلٹس کے لائسنسنز کے لیے امتحان کے دوران بےضابطگی، غلطی/ کمیشن کی تحقیقات کے لیے ایوی ایشن سیکریٹری سے ایک بورڈ آف انکوائری کی تشکیل کی درخواست کی تھی۔

اسی تناظر میں بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا گیا اور اس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپیوٹر ڈیٹا کے فرانزک ثبوت کے مطابق 262 پائلٹس کے لائسنسز ’جعلی’ امتحانات پر مبنی تھے۔

بعد ازاں 26 جون 2020 کو سی اے اے نے 262 پائلٹس اور ان کے لائسنسز کو تصدیق کے لیے معطل کردیا، ان 262 پائلٹس کے نام عوام کے سامنے لائے گئے تاکہ دیگر پائلٹس بمشول پاکستان سے باہر کام کرنے والوں پر کوئی منفی تاثر نہیں جائے۔

تاہم 30 جون کو یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے یورپ کیلئے پی آئی اے کی پروازوں کو 6 ماہ کے لیے معطل کردیا، اس طرح کی معطلی کو سائٹ یا ریموٹ آڈٹ پر تسلی کے بعد ہی ختم کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 259 لائسنسز کی تصدیق کا عمل مکمل کرلیا گیا۔

ایک مناسب عمل کے بعد 6 جولائی کو 28 پائلٹس کے لائسنسز کی منسوخی کے لیے ایک سمری وفاقی کابینہ میں جمع کروائی گئی، جسے اگلے ہی روز منظور کرلیا گیا۔

درخواست گزار محمد ثقلین کا نام ان 28 پائلٹس کی فہرست میں 16ویں نمبر پر موجود تھا۔

بعد ازاں 24 جولائی کو ایک شکایت پر حکام نے ایف آئی اے سے درخواست کی کہ وہ درخواست گزار سمیت مشکوک لائسنسز کے اجرا میں ملوث مشتبہ سی اے اے حکام/ افراد اور پائلٹس کے خلاف انکوائری کرے، ایف آئی اے کی انکوائری تاحال جاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی ہوا بازی کے ادارے، اقوام متحدہ کی ایجنسی جو بین الاقوامی ہوا بازی کی صنعت کی حفاظت کی نگرانی کرتی ہے، اس نے اپنے 18 ستمبر کے ایک خط میں تمام موجودہ لائسنسز کا جائزہ لینے کی تجویز دی۔

جس کے نتیجے میں یہ سامنے آیا کہ 860 فعال پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا گیا جس میں 262 مشتبہ پائے گئے اور معطل کردیے گئے، تاہم تصدیق کے بعد 172 لائسنسز درست رہے جبکہ درخواست گزار سمیت 50 لائسنسز تصدیق کے عمل میں ناکام رہے اور انہیں کابینہ کی منظوری کے ساتھ منسوخ کردیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس معاملے میں انکوائری سے قبل دیگر 2 پائلٹس کے لائسنسز منسوخ کیے گئے تھے، مزید یہ کہ 32 دیگر پائلٹس کے لائسنسز بھی تصدیق میں ناکام رہے تھے اور وہ اس وقت معطل ہیں۔

اس کے علاوہ انکوائری مکمل ہونے سے قبل 3 پائلٹس کی موت ہوگئی، باقی 3 پائلٹس کے لائسنسز کی تصدیق کا عمل ابھی جاری ہے۔

ساتھ ہی رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ اس موقع پر کسی بھی منفی حکم کے پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے اور ایئرلائنز سمیت ان پائلٹس جنہیں سی اے اے نے لائسنسز جاری کیے ہیں ان کے لیے دور رس نتائج ہوں گے، مزید یہ کہ اس وقت پاکستان کے پائلٹس کی بڑی تعداد غیرملکی ایئرلائنز میں کام کر رہی ہے۔

Exit mobile version