اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ چین اپنے سنکیانگ اور تبت کے خطوں میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے، انہوں نے چین سے اس روش کو بدلنے کا مطالبہ کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق وولکر ترک انسانی حقوق کے معاملے پر چین کو زیادہ سختی سے چیلنج نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اب اپنے ایک بیان میں انہوں نے بھی چین سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے ان محافظوں کو رہا کرے جنہیں ’لڑائی جھگڑا شروع کرنے اور پریشانی پیدا کرنے کی ’مبہم‘ جرم کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو دی گئی اپنی تازہ ترین عالمی اپ ڈیٹ میں وولکر ترک نے چین سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے دفتر سمیت انسانی حقوق کے دیگر اداروں کی جانب سے سنکیانگ، تبت اور دیگر علاقوں میں بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قوانین، پالیسیوں اور طرز عمل کے حوالے سے دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں قومی سلامتی سے متعلق قوانین کے بارے میں موجود خدشات کے حوالے سے ہانگ کانگ کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہوں۔
وولکر ترک نے کہا کہ ان کا دفتر انسداد دہشت گردی سے متعلق پالیسیوں، صنفی مساوات، اقلیتوں کے تحفظ، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر چین کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ اس بات چیت کے ٹھوس نتائج برآمد ہوں۔
وولکر ترک نے ترقی حاصل کرنے اور غربت کے خاتمے میں چین کی پیشرفت کو تسلیم کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ ایسی پالیسیوں کو متعلقہ قوانین اور پالیسیوں کو عالمی انسانی حقوق کے معیارات سے ہم آہنگ کرنے والی اصلاحات پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ میں بالخصوص فوجداری قانون کے آرٹیکل 293 میں ’جھگڑا کرنے، پریشانی پیدا کرنے‘ کے مبہم جرم پر نظر ثانی کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں اور اس قانون کے تحت زیر حراست انسانی حقوق کے محافظوں، وکلا اور دیگر افراد کی رہائی پر زور دیتا ہوں۔
جنوری میں اقوام متحدہ میں اپنے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کے جائزے کے دوران چین کو مغربی ممالک کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن روس اور ایران سمیت دیگر ممالک نے اس کی تعریف کی۔
چین کو باقاعدہ طور پر یونیورسل پیریڈک ریویو کا سامنا ہے، یہ ایک جائزہ ہے جس سے اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کو ہر چار سے پانچ سال بعد اپنے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کے لیے لازمی گزرنا ہوتا ہے۔
چین نے اصرار کیا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے، غربت کے خاتمے اور حقوق کے تحفظ کے لیے تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے۔ چین نے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے انسانی حقوق کے مسائل کو “سیاست زدہ کرنے اور بطور ہتھیار استعمال کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
لیکن مغربی ممالک نے جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے بعد اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے 2020 میں شہری آزادی کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن اور ہانگ کانگ پر نافذ قومی سلامتی کے قانون کو اجاگر کیا۔
دیگر ممالک نے تبت میں ثقافتی اور مذہبی شناخت مٹانے کی مبینہ کوششوں اور سنکیانگ میں کیے جانے والے جبر پر خدشات کا اظہار کیا۔
چین پر شمال مغربی خطے سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زیادہ ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کو حراست میں رکھنے کا الزام ہے جب کہ چین ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
وولکر ترک سے قبل اس عہدے پر رہنے والے مشیل بیچلیٹ نے 2022 میں اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے سے چند منٹ قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں سنکیانگ میں ممکنہ ’انسانیت سوز جرائم‘ کا حوالہ دیا گیا تھا، چین نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایغور کمیونٹی اور دیگر مسلمان برادریوں کے اراکین کے ساتھ ناروا سلوک اور امتیازی حراست بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کو جنم دے سکتے ہیں۔
رپورٹ میں عالمی برادری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اب دنیا کو سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورتحال پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو تیار ہونے میں ایک سال لگا تھا اور رپورٹ کی چین نے سخت مخالفت کی تھی۔