حکومت پاکستان نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نامزد افسر کو ’قومی سلامتی کے مفاد‘ کے پیش نظر شہریوں کی فون کالز یا پیغامات کو انٹرسیپٹ اور ٹریس کرنے کی اجازت دے دی۔
مختلف اخباروں کے مطابق حساس ادارے کو ٹیلی فون کالز یا میسج میں مداخلت اور سراغ لگانے کا اختیار مل گیا، پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) ایکٹ 196 کے سیکشن 54 کے تحت اجازت دی گئی۔
اس حوالے سے پاکستانی وفاقی کابینہ نے حساس ادارے کے نامزد افسر کو کال ٹریس کرنےکا اختیار دینے کی منظوری دی، کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے منظوری دی، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی پاکستان نے اس ضمن میں نوٹیفیکشن بھی جاری کردیا ہے۔
نوٹیفیکشن کے مطابق قومی سلامتی کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ آئی ایس آئی جس افسر کو شہریوں کی فون کالز اور پیغامات سننے اور ریکارڈ کرنے کے لیے نامزد کرے گی وہ گریڈ 18 سے کم نہیں ہوگا۔
دوسری جانب، انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ حساس ادارے کو پاکستان کے کسی بھی شخص کا ٹیلی فون یا میسج ٹیپ کرنے کی اجازت دے کر حکومت نے خود اپنی شہہ رگ کاٹ لی۔
انہوں نے کہا کہ ایک آرڈیننس کے تحت آئی ایس آئی کا افسر پاکستان کےکسی بھی شہری کا ٹیلی فون یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ٹیپ کرسکتا ہے۔
اس خبر کو لے کر عوام میں غم و غصّہ پایا جاتا ہے، لوگوں کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کے نام پر عام شہریوں کے کالز سننا کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔