برطانیہ اور یورپی یونین نے کہا ہے کہ درخواست کر رہے ہیں کہ میانمار میں فوج کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے معاملے پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا خصوصی سیشن طلب کیاجائے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کے حقوق کونسل میں تعینات برطانوی سفیر نے ایک اجلاس میں کہا کہ یورپی یونین کے ساتھ مل کر درخواست دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کی جانب سے منتخب سیاست دانوں اور شہریوں کی گرفتاریاں ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میانمار میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق تحقیق کار تھامس اینڈریو نے خصوصی سیشن کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ پیغام دیا جائے کہ میانمار کے شہری خطرناک اور اہم وقت پر تنہا نہیں ہیں۔
برطانوی سفیر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہمیں میانمار کے شہریوں کے حق میں فوری ردعمل دینا چاہیے اور وہاں انسانی حقوق سے متعلق حالات پر نوٹس لینا چاہیے۔
دوسری جانب حکومت کا تختہ الڑنے والی میانمار کی فوج نے آنگ سان سوچی کے حق میں احتجاج کرنے والے شہریوں کو باز رہنے کی تنبینہ کردی ہے۔
فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جو کوئی بھی ریاست کے استحکام، عوام کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا، اس کے خلاف قانون کے مطابق موثر کارروائی ہو گی۔
یاد رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کو جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور ا?نگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماوں کو حراست میں لیا تھا۔
فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری بیان کے مطابق فوج نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
میانمار میں یہ بغاوت سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی تھی جس نے انتخابات میں فوج کی حامی جماعت کی بدترین شکست کے بعد جنم لیا تھا۔
فوج کے ایک ترجمان نے نئی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل بغاوت کو مسترد کرنے سے انکار کردیا گیا تو کشیدگی میں اضافہ ہوا اور فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ نے آئین ختم کیے جانے کے امکان کوتقویت بخشی۔
بعد ازاں عوام کی جانب سے شدید احتجاج شروع کیا گیا اور معزول رہنماوں آنگ سان سوچی اور ون مائنٹ کی تصاویر اٹھا کر فوج کو مشکل میں ڈال دیا اور فوجی آمریت کے خاتمے کے نعرے لگائے۔
فوج نے احتجاج کو روکنے کی کوشش میں پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی، نیٹ بلاکس انٹرنیٹ آبزرویٹری کے مطابق رابطے کا معیار پہلے ہی 16 فیصد تک گر چکا ہے جبکہ فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام بلاک ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بلیک آوٹ کو ‘گھناونا اور ناقابل قبول’ عمل قرار دیا ہے۔
انٹرنیٹ سروس معطل ہونے کے باوجود ہزاروں مظاہرین یانگون یونیورسٹی کے قریب جمع ہوئے اور متعدد لوگوں نے سرخ ہیڈ بینڈز پہنے ہوئے تھے جو نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا رنگ ہے۔
مظاہرین نے تین انگلیوں کی سلامی میں ہاتھ اٹھایا، یہ اشارہ تھائی جمہوریت نواز مظاہرین کی جانب سے مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔