وجودِ زن سے ہے تصورِ کائنات میں رنگ – تحریر ۔ ماریہ خان

0
373

سراپائےِ محبت، وفا، سراپائے ہمدردی، سراپائےِ عزت کا عملی مجسمہ بنتِ حوا ہے۔بنتِ حوا تقدس کی علامت ہے۔افزائشِ نسل کا کام عورت کو سونپا گیا ہے۔ عورت نسلوں کی تربیت کرنے والی ہے، اور کہا جاتا ہے ہر کامیاب مرد کا کریڈٹ عورت کو جاتا ہے۔ کیونکہ عورت ہی ہر روپ میں مرد کا ساتھ دینے والی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے قیام میں جہاں مردوں کی بہادری اور محنت تھی ان کے شانہ بشانہ عورتیں بھی تھی۔ عصرِ حاضر میں عورتوں نے اپنی خوبیوں کا لوہا منوایا ہے۔ ظلم و جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کی،، عاصمہ جہانگیر، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، کلثوم نواز، مریم نواز، نوشین افتخار سنگار پور کی صدر حلیمہ یعقوب،کریمہ بلوچ،ماہ رنگ بلوچ،اندرا گاندھی ہمارے سامنے مثالیں ہیں.۔

بے نظیر بھٹو آمریت کے خلاف، جمہوریت کی بحالی کے لیے اس وقت نکلی جب عورت کو گھر تک محدود رکھا گیا تھا۔ ان کی محنت ہمت بہادری کو پوری دنیا میں سراہا گیا اور پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ اسی طرح ملک پاکستان میں مارشل لا لگایا گیا ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹایا گیا ملک بدر کیا گیا اس وقت محترمہ کلثوم نواز نے آمریت کے خلاف ڈٹ کر آواز بلند کی آج بھی ان کو بہادر خواتین میں شمار کیا جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے پورے جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے ہیومن رائٹس کمیشن کی بنیاد رکھی، عورتوں، بچوں، اقلیتوں کے حقوق کی پہلے بات نہیں ہوتی تھی اب اس پر باقاعدہ بحث ہوتی ہے اور جہاں بھی ظلم ہو ہیومن رائٹس اس کا نوٹس لیتی ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے سماج کے پسے ہوئے طبقے کو ذہنی غلامی سے نجات دلا کر سوچنے، سمجھنے غور کرنے اپنا حق مانگنے کا شعور دیا۔


ہر شعبے جس سے مرد کا تعلق ہو عورت مرد سے پیچھے نہیں بلکے شانہ بشانہ ہے قدم سے قدم ملا کر چلی ہے اور اس بات کو باور کروایا کے عورت کمزور نہیں ہے۔ افزائشِ نسل سے لے کر سیاست، کھیل، حکومت، بزنس ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ کبھی کم عمر ترین ارفع کریم ہو یا پھر ثناء میر کسی میدان میں بھی کم نہیں۔ زہرہ نعیم 157 ممالک میں سے پہلی پوزیشن لینی والی خاتون ہیں۔


8مارچ 1908 کا دن عورتوں کا دن ہے جسے یومِ خواتین کہتے ہیں۔ اس دن عورتوں نے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کی۔8مارچ کا آغاز جفاکشی سے ہوا تھا۔ یہ محنت کش عورتوں کی جدوجہد کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے یہ کہا جاتا ہے کہ 8مارچ 1857ء کو نیویارک سٹی میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبہ میں کام کرنے والی عورتوں کی ایک بڑی جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔

آٹھ مارچ 1908ئکو سوشلسٹ عورتوں نے نیویارک میں 15 ہزار عورتوں کا ایک مظاہرہ منظم کیا، ان کا مطالبہ تھا کہ تنخواہیں بڑھائی جائیں، اوقات کار کم کیے جائیں، ووٹ کا حق دیا جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔ اس روز کے بعد سوشلسٹ پارٹی امریکہ نے فیصلہ کیا کہ امریکہ میں آٹھ مارچ کو عورتوں کا دن منایا جائے گا، اس طرح پہلی دفعہ 8مارچ 1909ء کو اس دن کو منایا گیا۔ سوشلسٹ انقلاب عورتوں کی وجہ سے آیا۔ یہ ثابت ہوگیا کے عورت ذات پات، رنگ و نسل کے تعصبات سے ہٹ کر بنیادی حقوق کی جنگ لڑ سکتی ہیں۔ زمانہِ جاہلیت کا راج آج بھی کچھ حصوں میں پایا جاتا ہے جہاں عورت کے ساتھ جانور کی طرح پیش آیا جاتا ہے۔ ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنا غلط سمجھا جاتا ہے ہر طرح کی پابندی کا شکار ہوکر عورت سچ اور غلط میں تفریق نہیں کرپاتی تب ہی وہ فرسودہ روایات سے ڈر کر چپ رہتی ہے اور ظلم و ستم برداشت کرتی رہتی ہے۔ یومِ خواتین عورتوں کے حقوق کا دفاع کرتا ہے اور اپنے دفاع کے لیے سامراجی طاقتوں کے آگے ڈٹ جانا، سماجی اور اجتماعی کوششوں سے ہی اس ظلم و ستم سے آزادی ممکن ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں