مارچ 8 کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر اور ناانصافیوں کو اجاگر کرنا اور ان کے حقوق کے بارے میں شعور و آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے۔
خواتین کے ساتھ ہونے والے سماجی جبر کی تاریخ پہ اگر نگاہ ڈالی جائے تو جتنی لمبی طبقاتی تاریخ ہے اتنی ہی طویل خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کی تاریخ ہے۔ غلام دارانہ دور میں جب نجی ملکیت کا آغاز ہوا، حاکم اور محکوم طبقے کا وجود عمل میں آیا اور حاکم طبقے کے ہاتھوں محکوم طبقے کی محنت کا استحصال شروع ہوا وہیں سے جسمانی طاقت کے بل پہ مرد نے عورت پہ غلبہ حاصل کر لیا اور عورت مرد کی ملکیت میں چلی گئی۔ ایک طرف طبقاتی استحصال تو دوسری طرف مرد کی محکوم عورت دوہرے جبر کا شکار ہو گئی۔
موجودہ دور میں جب ساری دنیا میں سرمایہ داری کا بھوت محنت کش طبقے پہ قہر برسا رہا ہے وہیں اس استحصالی نظام نے عورت کو بازار کی جنس بنا دیا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق سے محروم انسان جہاں 12، 12 گھنٹے اپنی محنت بیچنے پہ مجبور ہے وہیں بے بس خواتین اپنا جسم، اپنا حسن بیچنے پہ مجبور ہیں۔ دس روپے کی پراڈکٹ سے لے کر لاکھوں کی پراڈکٹس پر خواتین کے حسن کی تشہیر سے منافع حاصل کیا جا رہا ہے۔ سماجی ناہمواری کے باعث قبائلی معاشروں میں آج بھی خواتین کی خریدوفروخت عام کاروبار ہے۔ پسماندہ معاشروں میں علم و شعور کی کمی کے باعث جاگیردارنہ باقیات موجود ہیں اس لیے آج بھی بہن، بیٹی غیرت کی بھیٹ چڑھ جاتی ہے۔ جبری شادی سے انکار پہ پھول سے چہروں کو تیزاب سے جلا دیا جاتا ہے۔ چار چار سالہ بچیاں انسان نما جنسی بھیڑوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ آئے روز غیرت کے نام پہ قتل ہوتی ہیں تو کبھی سنگسار کر دی جاتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں بوڑھوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہیں تو کبھی جوئے میں لگا دی جاتی ہیں۔
دین دھرم کے نام پہ بے زبان جانور کی طرح چار دیواری تک محدود کر دی جاتی ہیں۔ گھریلو عورتیں بنا کسی اجرت کے سارا دن مزدور کی طرح کام کرتی ہیں اور ذرا سی غلطی کوتاہی پہ مرد کے ہاتھیوں مار پیٹ اور تذلیل کا سامنا کرتی ہیں لیکن والدین سے ذکر تک نہیں کرتیں کیونکہ والدین کو طلاق یافتہ بیٹی قبول نہیں ہوتی، بیٹی سے زیادہ اپنی عزت عزیر ہوتی ہے۔ والدین کی بے حسی کی وجہ سے اور بچوں کی محبت میں خواتین ساری زندگی شوہر کا ظلم وستم خاموشی سے برداشت کرتی رہتی ہیں۔
سامراج کے زیرِ قبضہ نوآبادیاتی خطوں کی خواتین کو جبری طور پہ اغوا کر دیا جاتا ہے۔ جموں کشمیر کی کنٹرول لائن پہ کشیدگی کے باعث آئے روز جہاں مائیں اپنے جگر گوشے کھو رہی ہیں وہیں سندھ اور بلوچستان میں ان کے بچے لاپتہ ہو رہے ہیں۔ خواتین کے ساتھ اغواہ اور گمشدگیوں کے حادثات پیش آ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ عورتیں لاپتہ ہیں۔
علم و شعور سے محروم خواتین جب عملی زندگی میں قدم رکھتی ہیں تو بچوں کی مناسب تربیت نہیں کر پاتیں کیونکہ وہ خود ہی تعلم و تربیت سے محروم ہوتی ہیں۔ “ماں ” جو خاندان کی بنیادی اکائی ہے اگر وہ تعلیم وترتیب اور علم و شعور سے محروم رہے گی تو وہ باشعور اور تربیت یافتہ خاندان کیسے تشکیل دے گی؟
اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے خواتین کو خود میدانِ عمل میں اترنا ہو گا اور اس استحصالی نظام کے خلاف مرد کے شانہ بشانہ سوشلسٹ سماج کے قیام کے لیے ایک طویل جدوجہد کی تاریخ رقم کرنا ہو گی۔ اسی میں خواتین اور محنت کش طبقے کی نجات ہے اور یہی انسان کی معراج ہے۔
عورت جنس نہیں انسان ہے!