آج ہم نے زاہد کی لاش کو بھی سعودی عرب سے وصول کرنے کے بعد دفنا دیا ہے۔زاھد پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع باغ گاوں سری آویڑہ محلہ ہولدار کا رہائشی تھا۔یہ محنت کش اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے عرب کے تپتے صحراؤں میں اپنی محنت فروخت کرتا تھا۔کیونکہ جس ریاست میں وہ پیدا ہوا وہاں شہریوں سے تو ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔ہر چیز خریدنے پر ٹیکس،روڈ پر سفر کرنے کا ٹیکس۔پانی بجلی۔ٹیلی فون پر ٹیکس۔اٹھنے بیٹھنے لیٹنے پر ٹیکس مجموعی طور پر ہمارئے لوگ ستر فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن بدلے میں ریاست کیا دیتی ہے؟؟نہ باعزت روزگار۔نہ تعلیم اور نہ ہی صحت کی سہولتیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارئے شہریوں کو روزگار کے لیے بیرون ملک اپنی محنت بیچنا پڑتی ہے۔ریاست کے کتنے لوگ ریاست کے باہر ذلتوں بھری زندگیاں گزار رہے ہیں محض اپنے خاندان کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے لیے اس کا کوئی ریکارڈ مظفرآباد میں بیٹھے حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔۔لوگوں کی جان و مال کا تحفظ تو دور کی بات ان حکمرانوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ بیرون ریاست ہمارئیشہریوں کی کتنی تعداد ہے اور کس کس جگہ ہے ان میں سے سالانہ ہم کتنے طالب علموں اور کتنے محنت کشوں کی لاشیں وصول کرتے ہیں۔
ایک محنت کش کی جب عرب سے لاش آتی ہے تو خاندان کے کتنے لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہو جاتے ہیں جن کی معشیت مرنے والا اپنی زندگی میں سنبھالے ہو? ہوتا ہے۔
زاھد بھی اپنے خاندان کا ایک جاندار سہارا تھا جو پورئے خاندان کو مشکلات میں سہارا دینے والا انسان تھا۔اس کی محنت سے کمائی گئی دولت سے زرِ مبادلہ کی مد میں ریاست ٹیکس وصول کرتی تھی۔اس کی محنت سے کمائی گئی دولت سے ماچس کی ڈبیہ تک خریدنے پر ٹیکس ادا ہوتا تھا زاھد محنت بیچتے ہوئے بلاکوں کے نیچے آ کر اپنی جان گنوا بیٹھا اس کے تعلق والے دوست و احباب رشتہ دار اس کی لاش سعودی عرب سے گھر لے آئے اسے دفنا دیا جنت میں جانے کی دعایں بھی دے دیں لیکن اس سارے عمل میں اس ریاست نے کیا کردار ادا کیا جو ریاست زاھد کی کمائی گئی پائی پائی سے ٹیکس وصول کرتی رہی ہے۔
زاھد کے مرنے کے بعد بے سہارا ہونے والے خاندان کی باعزت کفالت اور بچوں کی تعلیم کے لیے ریاست کے پاس کیا کوئی منصوبہ ہے؟
ان سارے سوالات کا جواب نفی میں ملتا ہے جن کا تعلق ریاست کے فرائض سے ہو۔شہری اپنے تمام تر فرائض مشکل اور کٹھن زندگیوں کے باوجود پورے کرتے ہیں لیکن ریاست اپنے تمام فرائض سے غافل ہے یہی وجہ ہے کہ شہری بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔تعلیم۔علاج اور روزگار سے محروم لوگ معاش کی تلاش میں بیرون ملک جاتے ہیں اور جب کسی محنت کش کی وہاں سے لاش واپس آتی ہے تو اس جلاوطن موت کی زمہ دار یہ ریاست ہوتی ہے چونکہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اپنے وطن میں باعزت روزگار فراہم کرئے۔
زاھد کی موت کی زمہ دار بھی ریاست ہے۔
ہمیں ایسی اموات پر اجتماعی طور پر ریاست کے غافلانہ کردار پر سوالات اٹھانا ہوں گے ورنہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل تو دور کی بات ان کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہوں گی۔