بلوچستان میں بنگلہ دیش کی طرز پر پاکستان آرمی کی بربریت وسفاکیت جاری ہے۔ گذشتہ دو تین دنوں کے دوران 10افراد کوجعلمی مقابلوں میں قتل کردیا گیاہے۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں پاکستان آرمی نے ایک آپریشن میں 7 مشتبہ افراد کی فائرنگ کے تبادلے میں ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
فورسز حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار وں نے تربت کے علاقے میں خفیہ اطلاع پر آپریشن کیا تو نامعلوم نے افراد نے سیکورٹی فورسز پر فائرنگ کر دی۔
فورسز حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کی جوابی فائرنگ میں 7 ملزمان ہلاک ہو گئے۔
فورسز حکام نے دعویٰ کیا ہے مارے جانے والے افراد کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کر لیا گیاہے۔
واضع رہے کہ بلوچستان میں فورسزکی جانب سے اس طرح کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو مکمل طور پر جعلی ثابت ہورہی ہیں۔اوربعد ازاں ان کارروائیوں میں مارے جانے والے افرادکی نہ شناخت ظاہر کی جاتی ہے اور نہ ہی دیگر تفصیلات میڈیا کو جاری کئے جاتے ہیں۔
فورسزکی جانب سے اس طرح کے جعلی مقابلوں میں اب تک جتنے بھی افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ پہلے سے لاپتہ تھے اور فورسز کے عقوبت خانوں میں سالوں سے قید تھے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ میں بلوچستان کے علاقے بلیدہ کے رہائشی اور پاکستان فوج کے حاضر سروس اہلکار حنیف بلیدئی نے گذشتہ روز بلیدہ گلی میں گھر میں گھس کر ایک نوجوان کو قتل کردیا۔
ذرائع کے مطابق قاتل نے الزام عائد کیا ہے کہ مقتول نے پاکستان فوج اور اسلام کے خلاف باتیں کی ہیں اسی لئے اس کاقتل واجب ہے۔
خاندانی ذرائع کا کہناہے کہ مذکورہ شخص کو ہم نے پہچانا اور واردات کے وقت مذکورہ شخص نے اپنے چہرہ کو نہیں ڈھکا تھا۔
ذرائع بتارہے ہیں کہ مذکورہ شخص کا تعلق پاکستان کے فوج سے ہے اور اس وقت بلیدہ میں باقاعدہ مخصوص ٹاسک کے تحت کام کررہا ہے۔
مذکورہ شخص جو سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پربنام”نایاب بلیدئی“کے نام سے موجود ہے اس نے اس بات کی تصدیق بذریعہ پوسٹ کی ہے کہ مذکورہ شخص کو گذشتہ روز اس نے قتل کیا ہے۔
جبکہ اہلخانہ نے حکام سے مذکورہ شخص کے خلاف قانونی کارروائی کے درخواست کی تاہم ابھی تک حکام کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیاہے۔
اسی طرح بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 2افراد قتل کردیئے گئے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے دونوں ملزمان ایک تاجر کے نوجوان بیٹے کے اغوا میں ملوث تھے جس کی رہائی کے بدلے ملزمان نے لواحقین سے تین کروڑروپے تاوان مانگا تھا۔
پولیس کے مطابق مارے گئے ملزمان میں سے عبدالسخی پولیس کی حراست میں تھا جس کی نشاندہی پر اس کے باقی مفرور ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب کوئٹہ کے تھانہ منظور شہید کی حدود میں مشرقی بائی پاس پر سی آئی اے پولیس نے چھاپہ مارا۔
کیس کے تفتیشی افسر اکرم لغاری نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ملزمان نے پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کردی جس سے ان کا اپنا ساتھی عبدالسخی مارا گیا۔
پولیس حکام نے دعویٗ کیا ہے کہ جوابی کارروائی میں مطلوب ملزم غوث الدین کو بھی ہلاک کر دیا جبکہ ان کے باقی دو ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جن کی تلاش جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے دو ماہ قبل کوئٹہ کے علاقے سرکی کلاں کے رہائشی تاجر محمد عمر کے 23 سالہ بیٹے طالبعلم امان اللہ کو غوث آباد میں ایک کباب کی دکان کے باہر سے اغوا کیا تھا اور رہائی کے بدلے لواحقین سے تین کروڑ تاوان مانگا جس میں سے پندرہ لاکھ روپے وصول بھی کیے۔
تفتیشی آفیسر کے مطابق اغوا کا مقدمے تھانہ انڈسٹریل میں درج کر کے تفتیش سی آئی اے کے سپرد کی گئی تھی۔
تفتیش کے دوران پولیس نے ملزم عبدالسخی کا سراغ لگا کر اسے 30نومبر کو غوث آباد سے گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم عبدالسخی نے دوران تفتیش اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے مغوی امان اللہ کو لنک بادینی روڈ پر ایک کرایے کے مکان میں رکھا تھا۔ ملزم کے مطابق مغوی امان اللہ نے انہیں پہچان لیا تھا اس لیے انہوں نے اسے قتل کرکے لاش اسی کرائے کے مکان کے گٹر میں پھینک دی۔
ملزم کی نشاندہی پر پولیس نے یکم دسمبر کو مغوی کی لاش برآمد کی تھی۔
ہلاک اغوا کاروں کی لاشیں ضابطے کی کارروائی کے لیے سول ہسپتال منتقل کی گئیں۔
واضع رہے کہ بلوچستان میں جعلی پولیس مقابلوں میں اب تک متعدد جبری لاپتہ افرادمارے گئے ہیں جس پر لاپتہ افراد لواحقین، سیاسی و سماجی حلقے اورانسانی حقوق ادارے شدید تشویش کا اظہار کر چکے ہیں لیکن یہ سلسلہ رکنے کے بجائے تیزی سے وسعت پارہا ہے۔