پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے اور لاپتہ طالب علم حفیظ بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں طلباء کی جانب سے پیس واک کا انعقاد کیا گیا،قائداعظم یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے یونیورسٹی کے اندر ایک ریلی نکالی جبکہ طلباء نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء کے ساتھ نارواں سلوک کو اجاگر کرنے کے لئے ٹیبلو پیش کی-
جبری گمشدگی کے شکار حفیظ بلوچ کی باحفاظت بازیابی کے لئے طلباء احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اسلام آباد میں بلوچ طلباء کونسل کے احتجاجی کیمپ کو 17 دن مکمل ہوگئے ہیں –
ادھر بلوچ طلباء نے گذشتہ اپنے پریس کانفرنس میں کلاسز کی بائیکاٹ کرتے ہوئے ملگ گیر احتجاج کی کال دی ہے۔ اس سے قبل کوئٹہ، لاہور اور تربت میں بھی بلوچ طلباء کی جانب سے احتجاج ریکارڈ کی گئی تھی-
گذشتہ روز اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے طلباء کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالیہ صورتحال کی وجہ سے باقی تمام بلوچ شہریوں کے ساتھ ساتھ بلوچ طلباء سب سے زیادہ ان غیر آئینی اور غیر انسانی سلوک اور تشدد کا شکار ہوتے جارہے ہیں جو طلباء پہلے سے ہی بلوچستان کے حالات کی وجہ سے ذہنی کوفت کا شکار تھے انہیں اب یہاں بھی سکون میسر نہیں۔
طلباء کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کا یہ سلسلہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی بہت تیزی سے جاری ہے جبکہ لاہور کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کے ہاسٹل رومز پہ چھاپے، گجرات یونیورسٹی میں ایچ ای سی (ہائیر ایجوکیشن کمیشن) پینل کی شکل میں آئے ہوئے ٹیم کی جانب سے بلوچ طلباء سے غیر متعلقہ سوالات، طلباء کے موبائل فونز لیکر ان کے میسیجنگ ایپس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کرنا، ملتان اور فیصل آباد کے بلوچ طلباء کو بلا کر غیر متعلقہ سوالات پوچھ کر انہیں بار بار مختلف ذرائع سے ہراساں کرنا، تعلیمی اداروں میں ایڈمیشن کے وقت انٹرویوز کے دوران بلوچ طلباء کو مسلح گروہوں سے تعلق رکھنے جیسے سوالات کر کے طلباء کو ہراساں کرنا روز مرہ کا معمول بنتا جارہا ہے۔
طلباء نے کہا کہ ہم اسلام آباد اور پنجاب سمیت پاکستان کے دوسرے تمام صوبوں میں زیر تعلیم طلباء سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ 21 مارچ 2022 بروز پیر کو ملک گیر کلاسز بائیکاٹ کا باقاعدہ حصہ بن کر اس غیر آئینی عمل کو روکنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔