Site icon News Intervention

ستائیس مارچ 1948 بلوچستان پہ جبری قبضہ، اور پسِ پردہ حقائق – ڈاکٹر جلال بلوچ

نصیر خان نوری کی وفات 1794ء تک بلوچ ریاست میں وہ تما م علاقے شامل تھے جہاں بلوچی بولی جاتی ہے۔ لیکن نصیر خان کی وفات کے بعد دیگر خوانین نے بلوچ ریاست کی تعمیر و ترقی کی جانب توجہ ہی نہیں دی جس کی وجہ سے ریاستی نظام میں کمزوریاں پیدا ہوتی گئی۔ ریاستیں جب کمزور ہوجاتی ہیں تو ان سے اغیار کو مستفید ہونے کی شۂ ملتی ہے۔ بلوچستان میں غالباً نصیر خان کی وفات کے ایک سال بعد سرور نامی ایک انگریزایجنٹ نے مغربی بلوچستان کے حالات معلوم کرنے کے لیے سفر کیا۔ لیکن اس کے پندرہ سال بعد برطانیہ کے لیے اس خطے پہ قبضہ کرنا ناگزیر ہوگیا تھا اسی لیے انہوں نے مستند اور عسکری حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے اعلیٰ فوجی افسروں کا انتخاب کیا۔اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ رقمطراز ہے کہ بلوچستان کے پرامن اور آسودہ و خوشحال ماحول کو پراگندہ کرنے کا آغاز 1795ء سے ہوا مگر باقائدہ برطانوی جاسوسوں کا دور اس خطہ میں 1810ء میں شروع ہوا اور پہلا انگریز جاسوس ہنری پوٹینگر کیپٹن کرسٹی کے ساتھ ساحلی علاقوں سے بلوچستان میں داخل ہوا اور بلوچستان اور بلوچ عوام کے لیے ایک لمبی غلامی کا سندیسہ بھی ساتھ لے کر آیا۔۱

یہ برطانوی آفیسران ازبک تاجروں کے بھیس میں بمبئی سے سمندر کے راستے بلوچستان کے ساحلی علاقے سونمیانی میں اترتے ہیں اور یوں ہنری پوٹینگر، اور کیپٹن کرسٹی اور بعض جگہ کیپٹن گرانٹ کا ذکر بھی ہوتا ہے، مکران سے قلات اور پھر نوشکی کا رخ کرتے ہیں۔ان کے مقاصد چونکہ عسکری تھے اسی لیے اس بات کا ذکر ہنری پوٹینگر اپنے سفرنامے میں یوں بیان کرتا ہے کہ ہم روز نیایت اشتیاق سے ان ممالک کے جغرافیہ اور ماہیت کے متعلق معلومات اندوزی کرتے رہے جن سے ہمارا آئندہ راستہ گزرنا تھا۔۲

اس کے علاوہ پوٹینگر بلوچستان کے چند ایک معدنیات کا ذکر بھی کرتا ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا یہ مہم فوجی نوعیت کا تھا جہاں آنے والے دنوں میں برطانیہ نے انہی جاسوسوں کی فراہم کردہ معلومات کو مدنظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل ترتیب دینا تھا، البتہ معدنیا ت جنہیں ان جاسوسوں نے نوشکی میں دیکھا تھا بلوچستان پہ قبضہ کرنے کی حرص میں مزید اضافے کا سبب بنا۔

برطانوی جاسوں کی مہم کے اٹھائیس) (28سال بعد برطانوی فوج نے بلوچستان میں قدم رکھا۔بلوچستان میں یہ خان مہراب خان کا عہد تھا۔اس دور میں برطانیہ بلوچستان کے راستے کو استعمال کرکے افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کررہی تھی لیکن ان کے اہلکاروں کو اس بات کا خوف تھا کہ بلوچستان میں بلوچوں کی اجازت کے بنا قدم رکھنا ان کی افواج کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔اس ضمن میں 1838ء میں سر الیگزنڈر برنس نے خان مہراب خان سے معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کردیا۔لیکن آنے والے دنوں میں انگریزوں کو جس کا بات خدشہ تھا کہ بلوچستان میں ان کے قافلے محفوظ نہیں، بالکل صحیح ثابت ہوئے۔اسی دوران جب انگریزی سپاہی بولان کے راستے سفر کررہے تھے کہ ان پہ اچانک مری قبائل کے جنگجوؤں نے حملہ کردیا، اس اچانک حملے نے انگریزوں کے قدم اکھاڑ دیے۔بلوچستان میں انگریزوں کے نقصانات کی وجہ سے انہیں پہلی افغان اینگلو جنگ1838ء میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بلوچوں کی اس مزاحمت نے جس کی وجہ سے انگریزافغان سرزمین پہ بھی پسپا ہوگئے انہیں قلات کی تسخیر کی جانب اکسا یا کیونکہ اب وہ یہ جان چکے تھے کہ افغان جنگ میں کامیابی کے لیے تسخیرِ قلات اولین شرط ہے۔لیکن تسخیرِ قلات کی جو سب اہم وجہ بیان کی جاتی ہے وہ برطانیہ کو فرانس، جرمنی اور روس کی جانب سے خطرات تھے کہ کہیں انہیں یہاں قدم جمانے کا موقع نہ مل جائے۔کیونکہ بلوچستان کا جغرافیہ ہی کچھ اس قسم کا ہے جو عسکری حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ رقم طراز ہے کہ 1810ء میں انگریزوں نے روسی، فرانسیسی اور جرمن خطرے کے پیش نظر بلوچستان کی زبردست گرافیائی اور عسکری پوزیشن کو دیکھتے ہوئے اپنا پہلا مشن لیفٹننٹ ہنری پوٹینگر کی سرکردگی میں روانہ کیا۔۳

اس تاریخی حقیقت کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغان جنگ کے دوران انگریزلشکر پہ بلوچ چھاپہ ماروں کے حملے بلوچستان کو اپنے نوآبادیات میں شامل کرنے کاجواز بن گیا ورنہ انہوں نے تو اس کی منصوبہ بندی ہنری پوٹینگر کی مہم سے قبل ہی مکمل کرلیا تھا۔ اور یوں 13نومبر 1839ء کو سقوط قلات کا واقعہ پیش آتا ہے۔سقوط قلات کے وقت انگریز فوج کے انڈس سیکٹر کا سپہ سالار ہنری پوٹینگر ہی تھا جس نے جنرل ولشائر کو قلات پہ حملہ کرنے کا سندیسہ بھیجا۔ جس سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ بہر صورت انگریزوں کا بلوچستان پہ قبضہ بڑی طاقتوں کا اس خطے میں راستہ روکنا تھا جن میں روس، جرمنی اور فرانس شامل تھے۔

سقوطِ قلات کے بعد بلوچستان میں برطانوی سامرا ج کے خلاف مزاحمت کا ایک نہ ختم ہونے سلسلہ شروع ہوگیالیکن انگریزسرکار یونانی حاکم فلپ کے نظریے کو لے کر آگے بڑھے اور بلوچوں کو تقسیم درتقسیم کا شکار کرتے رہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے اصل کرتا دھرتا وہ خود ہی بن بیٹھے۔اس دوران بلوچ حاکموں اور برطانوی قابضین کے درمیان مختلف معاہدات بھی ہوتے رہیں جن کی رو سے انگریز اپنے مقاصد کو تکمیل تک لے جانے میں کامیاب بھی ہوا۔ اس دوران انگریزوں کی جو سب سے بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے وہ ہے معاہدہ مستونگ۔13 جوالائی 1876ء کے معاہدہ مستونگ نے بلوچ ریاست کی آزادی کو سب سے بڑا دھچکا لگایا۔ اس معاہدے کے بعد انگریز بلوچستان میں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے، انگریزوں کی یہ حکمت عملی فارورڈ پالیسی کے نام سے مشہور ہوگئی۔ اس معاہدے میں انگریزوں نے سروان، جہالاوان، بیلہ اور خاران کے سرداروں کا خان قلات سے تصفیہ کرکے اور آنے والے دنوں میں مزید ثالثی کا عندیہ دیکر بلوچ قومی ریاست کو برطانوی ہند کے ماتحت رکھنے کے در کھول دیے۔ معاہدہ مستونگ سے قبل 1870 ء میں معاہد ہ گنڈامک ہوا جس کے تحت بلوچستان کی سرحد سے متصل کئی افغان علاقے حکومت برطانیہ کے ہاتھ آئیں۔ 18نومبر 1887ء میں ایک قرار داد کے ذریعے برطانیہ نے سبی، مری،بگٹی اور کھیتران علاقوں کے ساتھ کوئٹہ پہ مشتمل برٹش بلوچستان کے نام سے نیا صوبہ قائم کرکے برٹش ہند میں شامل کرلیا۔

بلوچستان کے ان علاقوں میں مداخلت کے بعد1890ء میں سنڈیمن نے مکران کا رخ کیا اور مکران میں بھی برطانوی فوج کا ایک دستہ ”میجر میؤر“ کی سربراہی میں تعینات کیا یوں حکومتِ برطانیہ کی عملی مداخلت مکران تک ممکن ہوگئی۔دراصل بلوچستان حکومت(ریاست قلات) تو مستونگ معاہدے کے بعد برائے نام تھی اسی لیے انگریزوں کو مکران تک قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ ان معاہدات اور برطانوی جبر کے خلاف ساروان، کوہستان مری، بولان، ڈیرہ بگٹی، جہلاوان اور مکران میں سرفروش وقتاً فوقتاً علمِ بغاوت بلند کرتے رہیں۔

مسلح محاز پہ جو کچھ ہوا یا ہورہا تھا وہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اس وقت دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں اور ان تبدیلیوں سے مستفید ہونے کے لیے سماج کو سیاسی حوالے سے متحرک کرنے کی انتہائی ضرورت محسوس کی جارہی تھی اس حوالے سے بلوچ سماج میں جو پہلا سیاسی رہنما ہماری نظروں سے گزرتا ہے وہ ہے میرعبدالعزیز کرد ہے جنہوں نے 1920ء میں ”ینگ بلوچ“ کے نام سے پہلی سیاسی تنظیم بنائی۔

بلوچ سیاسی تحریک میں میر عبدالعزیز کردکی بڑی اہمیت ہے۔اس لیے کہ کرد صاحب وہ اولین شخص ہے، جس نے قبائلی معاشرے کے اندر سے ابھر آنے والے نومولود شہری مراکز کی اہمیت کو جانچ لیا تھا۔اور اس طرح بلوچ تاریخ میں میر عبدالعزیزکرد وہ پہلا شخص ہے جس نے شہری مراکزکااندازِ سیاست شروع کیااور بلوچوں میں قرارداد اور جلسہ کی جدوجہد متعارف ومروج کردی۔۴

فقط تیرہ برس کی عمر میں وہ رہنما بنا اور 1920ء میں اپنی تنظیم ینگ بلوچ قائم کی۔تاریخ میں شاید ایسی کوئی مثال موجود ہو کہ مڈل کلاس کا کوئی فرد تیرہ برس کی عمر میں ایک جماعت کی بنیاد رکھ کر رہنما بنتا ہے۔اس سے بڑھ کر ہم میر صاحب کی سیاسی بالیدگی کو اس صورت میں دیکھ سکتے ہیں کہ نوعمری میں بھی انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ اگر ان حالات میں جہاں ایک جانب خان اور اس کے سردار سیاسی سوچ کو اپنے لیے موت کا پیام تصور کریں گے اور دوسری جانب برطانوی آباد کار جنہیں بلوچستان چاہیے تھا نہ کہ بلوچ قوم اور اگر بلوچ قوم میں سیاسی شعور اجاگر ہوتا تو یہ بات یقیناً برطانوی سرکار پہ گراں گزرتی اسی لیے ان تمام حالات کو مدِ نظر رکھ کر چھوٹی عمر اور بڑے دماغ کے مالک انسان نے اپنی تنظیم کو خفیہ رکھا۔

”ینگ بلوچ“ 1931ء میں ایک جماعت کا روپ اختیار کرکے انجمن اتحاد بلوچاں کی صورت میں سامنے آتی ہے لیکن اس جماعت کی عمر کافی مختصر رہی۔سیاسی عمل کا سلسلہ قلیل مدت کی جمودی کیفیت کے بعد 5فروری 1937ء میں دوبارہ شروع ہوا جو قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا۔اس جماعت نے بلوچ سماج میں کافی پذیرائی حاصل کی جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ پارٹی کا منشور تقسیم ہونے پر پارٹی کے بے لوث کارکنوں نے ریاست قلات کے طول و عرض میں اپنا کام شروع کردیا۔ جس سے بہت جلد ریا ست بھر میں نئی امنگوں اور نئے تقاضوں میں بھر پور زندگی کی لہر دوڑنے لگی۔۵

آگے چل کر گل خان نصیر لکھتے ہیں کہ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی سرگرمیاں بہت جلد پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کی نظروں میں کھٹکنے لگیں۔ریاست کا غیر ملکی طبقہ یادہ حواسِ باختہ نظر آنے لگا۔ اس حواسِ باختگی کے عالم میں وہ ریاست قلات کے ہر نوجوان کو خواہ وہ ملازم تھا یا طالب علم، مزدور اور زمیندار تھا یا تاجر و مال دار، قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کا ممبر خیال کرتے تھے۔۶

پارٹی کی ہر دلعزیزی کی ایک بڑی مثال جو ہمیں تاریخ میں ملتی ہے وہ1947ء کے الیکشن جہاں پابندیوں کے باوجود آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے باون میں سے انتالیس نشستوں پہ پارٹی کے ممبران کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ بلوچ قوم نے اس دوران جدید سیاست کو اپنا تو لیا جس میں عوامی سطح پہ انہیں کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن بلوچستان کی اہمیت پہلی جنگ عظیم کے بعد مزید شدت اختیار کرگئی اس حوالے سے فاروق بلو چ اپنی کتاب ”بلوچ اور ان کا وطن ”میں رقم طراز ہے کہ 1914ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم نے بلوچستان کی علاقائی اور جغرافیائی اہمیت مزید بڑھادی اور برطانیہ کی اس اہم ترین فوجی چوکی اور وسیع نوآبادیات پر قبضے کے لیے روسی، جرمن اور فرانسیسی خطرہ بڑھ گیا۔ معدنیات کی دریافت اور طویل ساحل سمندر نے بلوچستان کو سپر پاورز کے لئے موت و زیست کا مسئلہ بنالیا۔۷

بلوچ خطے کی اہمیت کے بارے اور بھی بہت سارے برطانوی اہلکاروں نے نشاندہی کی تھی جن میں اس وقت کے برطانوی کمشنر سرولیم میری ویدر نے1872ء میں بالائی سندھ کے پولیٹیکل سپرنٹنڈنٹ کرنل فیری کے نام مراسلہ لکھا۔اس مراسلے میں ولیم میری ویدر نے دیگر طاقتوں سے اپنی حکومت کو محفوظ بنانے کے لیے بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کو واضح کردیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ”بلوچ ایک ایسے خطے کے مالک ہیں جس کی جغرافیائی اہمیت حکومت برطانیہ کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس خطے کو برطانوی حکومت اس وقت محفوظ بناسکتی ہے جب یہاں کے مقامی افراد کے ساتھ دوستانہ روابط قائم ہوں۔اگر برطانوی سرکار اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہوتا ہے تو دنیا کی دیگر طاقتیں جن میں فرانس، جرمنی اور دیگر بڑی طاقتیں شامل ہیں ان کا راستہ آسانی سے روکا جاسکتا ہے اس کے علاوہ یہ خطہ نہ صرف ہندوستان تک ایک بہترین گزرگاہ ہے بلکہ پشاور اور افغانستان تک ہمارے مفادات اسی خطے سے وابسطہ ہیں۔“

لیکن برطانوی آبادکاروں نے بلوچ ریاست کو مستحکم خطوط پہ استوار کرنے کی کوشش ہی نہیں اور جب خان خدائیداد خان نے سرکاری فوج بنانے کی کوشش کی تو برطانوی طاقت نے قبائلی سرداروں کو اس ریاستی عمل کے خلاف متحرک کیا اور یوں سرکاری فوج جو ایسے حالات میں کسی بھی ملک کی دفاع کے لیے اہمیت کا حامل سمجھاجاتا ہے فقط خواب ہی بنا رہا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برطانیہ کو یہ لگا کہ اب انہیں اپنا بوری بستر گول کرنا پڑے گا تو مسلم لیگ کے لیے ایک ریاست بنانے کامنصوبہ تیار کیا تاکہ آنے والے دنوں میں سویت انقلاب کو روکنے اور مستقبل میں دوبارہ یہاں قدم جمانے کے لیے ان کی راہ ہموار ہو اور یوں نظریہ پاکستان کی جانب پیش رفت کی شروع ہوا۔

برطانیہ کی ہٹ دھرمی کی ایک وجہ بلوچوں کا سویت یونین کی طرف رجحان بھی ثابت ہوا۔ جیسے باکوکانفرنس میں مسری خان کھیتران کی شمولیت جنہوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کی اور لینن کی جانب سے یہ اعلان کہ کابل حکومت،بلوچستان کی تحریک آزادی کے حوالے سے تعاون کرے۔ان دنوں برطانیہ میں مقیم بلوچ قومی رہنما یوسف عزیز مگسی نے مستجار لیے گئے علاقوں کے حوالے سے خان کہ نمائندگی کرتے ہوئے ان کی واپسی کا مطالبہ برطانوی سرکار سے کیا تو انہوں نے واضح طور انکار کیا۔ مگسی کے اس مشن کی ناکامی کے نتیجے میں انقلاب پسندی نے جنم لیا۔ انجمن کے صدر نے سویت یونین کی مدد سے مسلح جدوجہد کی حمایت کی۔۸

برطانوی ہٹ دھرمی دیکھ کر یوسف عزیز مگسی نے بلوچستان کی آزادی اور ایک سوشلسٹ ریاست کے قیام کے لیے انتھک کوششیں کیں لیکن زندگی نے انہیں مہلت ہی نہیں دی۔ اس ضمن میں ڈاکٹرعنایت اللہ بلوچ رقمطراز ہے کہ(مگسی نے انجمن کی انقلابی خطوط پر از سر ِ نوتنظیم کا منصوبہ بنایا تھا۔اس نے اپنے دوستوں کو انجمن میں سے برطانویوں کے حمایتی عناصر کو نکال باہر کرنے اور بلوچستان کی مکمل سیاسی آزادی اورایک سوشلسٹ نظام کے قیام کی خاطر خود وقف کرنے کے متعلق خطوط لکھے۔۹

لہذابلوچوں میں سویت انقلاب کی سوچ نے برطانیہ پہ یہ واضح کردیا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننے کو ہرگزتیار نہیں ہوں گے۔ بلوچوں میں پنپنے والی سوشلسٹ سوچ کی وجہ سے آنے والے دنوں میں برطانیہ نے جناح اور اس کی ٹیم کواس خطے میں مرکزی کردار ادا کرنے میں معاونت کیا تاکہ اس سوچ کا قلع قمع ممکن ہوسکے۔

جن دنوں برطانوی آباد کار جناح اور اس کی کمپنی کو پروموٹ کررہے تھے، ان دنوں محمدعلی جناح بلوچستان کے کیس کا وکیل تھا۔ اس دوران جناح اور احمدیار خان(خان قلات) کے درمیاں کئی موقعوں پہ گفت و شنید بھی ہوئی۔ذیل میں ہم ان پہ روشنی ڈالیں گے۔

ایک جگہ جناح بلوچستان کی اہمیت یوں بیان کرتاہوا کہتا ہے، جس کاتذکرہ میر گل خان نصیر نے یوں کیا ہے کہ ”آپ کا ملک سیاسی،جغرافیائی اور اقتصادی نقطہ نظر سے نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیا میں ایک اہم ترین خطہ ہے۔“ جناح کی ان باتوں سے واضح پیغا م ملتا ہے کہ اتنی اہمیت کے حامل خطے کو ہم کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں لہذا بلوچستان کو اپنے قبضے میں لانے کی خواہش جناح کو شروع دن سے ہی رہی ہے۔جس کا اظہار جناح جیسے مکار نے ان الفاظ میں بھی کیا ہے کہ

میں آپ کو واضح الفاظ میں یہ بتانے والا ہوں کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ تمام اسلامی ممالک،اسلامی اصولوں کے مطابق ایک فیڈریشن کی صورت میں آپس میں متحد ہوجائیں گے۔اس میں سب اہم ترین حیثیت جس قوم اور ملک کو حاصل ہوگی وہ بلوچ اور بلوچستان ہے۔۰۱

اس سوچ کو مزید پروان چڑھانے کے لیے کہتا ہے کہ آپ مسلم لیگ کو بلوچستان میں منظم کریں۔
آزاد بلوچ ریاست کو مسلم لیگ کی کیا ضرورت پیش آنے والی تھی۔یہ جناح جیسے مکار کی وہی پالیسی تھی جس کے لیے برطانیہ اسے شئے دے رہی تھی۔ جیسے4 اگست1947ء کو نمائندہ تاج برطانیہ کی زیر صدارت نئی دہلی میں کانفرنس ہوئی۔اس کانفرنس میں وائسرائے ہند کے قانونی مشیر لارڈ ازمے، خان قلات، لیاقت علی خان، محمدعلی جناح، وزیر اعظم قلات محمداسلم خان اور قانونی مشیر سلطان احمد بھی شریک تھے۔اس کانفرنس کے نتائج گیارہ اگست 1947ء وائس رائے ہاوس نئی دہلی سے نشر ہوئے اور بارہ(12) اگست کودنیا کی پریس میڈیا نے اسے شۂ سرخیوں میں جگہ دی، جس میں کہا گیا کہ اس معاہدے کے تحت حکومت پاکستان نے قلات کی جداگانہ اور آزاد حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ہندوستانی ریاستوں سے مختلف قراردیا۔ ۱۱

یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس قرادر داد کے دیگر شقوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برطانیہ پاکستان کو اس سارے خطے کا چوکیدار مقرر کرنے والا تھا۔ جیسے اس قرارداد میں یہ لکھا ہے کہ اس سلسلے میں قانونی مشاورت حاصل کیا جائے گا کہ آیا حکومت برطانیہ اور حکومت قلات کے درمیان مستجار علاقوں کے متعلق کیے ہوئے اقرار نامے پاکستان کو وراثتاً منتقل کیے جاسکتے ہیں کہ نہیں؟ حالانکہ برطانوی سرکار کی ایکٹ آزادی کے دفعہ 7کی رو سے ایسے تمام معاہدات از خود ختم ہوجاتے ہیں اور وہ خطے جن پہ قبضہ کیا گیا تھا انہیں ان کی سابقہ حیثیت میں بحال کیا جانا تھا۔ لیکن پھر بھی اس غیر قانونی عمل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے جو برطانوی حکومت کے لیے سیاہ دھبہ ہے۔اس ضمن میں سب سے اہم بات کہ برطانیہ نے بلوچستان پہ قبضہ نہیں بلکہ معاہدات کے ذریعے بعض علاقوں کو مستجار لیا تھا۔ اس سے یقیناً اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ برطانوی سرکار نہ صرف ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہا بلکہ افغانستان کو تقسیم اور بلوچ قوم اور وطن کو تقسیم کرنے کے ساتھ پاکستان کی غلامی میں دینے کے اسباب بھی مہیا کرتا رہا۔ جس کی وجہ سے حکومت ِ برطانیہ کی جانب سے گیارہ (11)اگست اورحکومت ِ بلوچستان کی جانب سے 12 اگست کا اعلانِ آزادی فقط سات ماہ اور پندرہ دن تک رہا۔

جب بلوچوں نے ہر حال میں اپنی قومی ریاست کی آزادی کو برقرار رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا تو جناح جیسا مکار اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے بلوچستان کا رخ کیا جہاں 5۱ فروری1948ء کو جناح نے ڈھاڈر میں خان قلات سے ملاقات کرکے بلوچ ریاست کو پاکستان جیسے غیر فطری ملک میں شامل کرنے کی تگ و دو کی۔اس دوران میر احمدیار خان نے اسے پارلیمنٹ کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی بے اختیاری کااظہارکیا۔کیونکہ بلوچ ریاست کے دونوں ایوانوں نے باری اکثریت سے الحاق کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔21 فروری1948ء کو بلوچ ریاستی پارلیمنٹ کے دارالعوام کاپھر اجلاس ہوا جس میں الحاق کے مسئلے میں بات چیت ہوئی لیکن اس غیر فطری الحاق کی تجویز کو پھر مسترد کیا گیا۔جس سے مایوس ہوکر جناح نے ریاست قلات کے معاملات کافائل دفترخارجہ کے حوالے کیااور اس بارے میں 9 مارچ1948ء کو ایک مراسلہ کے ذریعے خان قلات کو آگاہ کیا۔کیوں کے جناح کو اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ بلوچ کبھی بھی پاکستان کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہوں گے۔

دراصل بلوچ اس وفاق میں شام ہونے کے لیے بالکل رضامند نہیں تھے۔کیونکہ 4اگست 1947ء کوبرطانیہ، پاکستان اور خان قلات کے درمیان ایک اسٹینڈ اسٹل ایگریمنٹ ہوا تھا۔ اس اسٹل ایگریمنٹ میں کہا گیا تھا کہ ”اسٹیٹس کوو“ کو برقرار رکھا جائے گا۔۲۱

جناح کی ہٹ دھرمی اور بلوچستان پہ جبری قبضہ تاریخ کاسیاہ باب بن چکا ہے جہاں جناح برطانوی نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تک قلات الحاق نہیں کرے گا مستجار علاقوں کے متعلق گفت و شنید نہیں ہوگی۔اس مکار وکیل نے ایک جانب مسلم لیگ کو ہندوستان میں مستحکم کرنے کے لیے ریاست قلات کے سامنے دامن پھیلایا جہاں اس پہ سونے اور جواہرات کی بھرمار ہوئی اور دوسری جانب یہ احسان فراموش اپنے ہی محسنوں کے لیے غلامی کا سندیسہ لے کے وارد ہوتاہے۔

برطانوی کردار بلوچ قوم کی غلامی میں سب سے اہم رہا اس حوالے میرگل خان نصیر قلات کے وزیر خارجہ مسٹرڈی، وائی، فل کی 14 دسمبر1947ء کے دیوان سے گفگو کواپنی کتاب میں اس انداز سے بیان کرتا ہے کہ ریاست قلات ایک خاص قسم کی ریاست ہے، دوسری ہندوستانی ریاستوں کی طرح نہیں۔ہندوستان کی ریاستوں میں مختلف اقوام آباد ہیں۔لیکن ریاست قلات میں ایک ہی قوم بلوچ آباد ہے اور اسی کی حکومت ہے۔اگرچہ یہ ملک ہندوستان کی سرحد پہ واقع ہے لیکن یہ کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا۔جس پر ہزہائی نس نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا قلات کی پوزیشن کو ہندوستانی ریاستوں سے جداگانہ تسلیم کیا جائے۔وائسرائے ہند کی جانب سے خان کو جواب ملا کہ تعلقات مابین قلات و برطانوی حکومت وہی رہیں گے جو عہد نامہ 1876ء (عہد نامہ مستونگ) درج ہیں۔۳۱

یعنی کہ وہ مستجار علاقے جیسے بیلہ، خاران و مکران بلوچستان کا حصہ ہی رہیں گے۔
مسٹر فل مزید کہتا ہے کہ ”جو علاقے برطانوی حکومت کے وقت قلات سے نکل گئے تھے، لازمی طور پر آزادی کے بعد قلات کو ملنے چاہیے۔“ ایک جانب برطانیہ کا ایجنٹ اس بات کا اقرار کررہا تھا کہ تمام مستجار علاقوں کی واپسی یقینی ہے اور دوسری جانب خاران، لسبیلہ اورکیچ کے سردار بائیان گچکی کو جناح سے قربتیں بڑھانے اور ریاست قلات کے خلاف اکسارہے تھے۔ یاد رہے کہ بائیان گچکی فقط کیچ کا سردار تھا جبکہ مکران کے دیگر سردار جیسے تمپ اور پنجگور کے سردار پاکستان سے الحاق کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔

وائسرائے ہند اور مسٹر جناح سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر فل کہتا ہے کہ جولائی 1947ء وزیر اعظم قلات کو دہلی بلایا گیا۔انہوں نے دہلی میں گفت و شنید کی با لآخر نتیجہ یہ نکلا کہ قلات آزاد ہوگیا۔ خیال تھا کہ ایکٹ آزادی کی دفعہ 7کی رو سے تمام ایسے معاہدات جو برٹش حکومت اور ہندوستانی ریاستوں میں تھے ختم ہوگئے، ایسے معاملات کے ختم ہونے سے وہ معاملات بھی ختم ہوجاتے ہیں جو کوئٹہ، نوشکی، نصیر آباد اور بولان کے متعلق کیے گئے تھے۔۴۱

یعنی وہ علاقے جنہیں 1887ء کے معاہدے کی رو سے مستجار لیا گیا تھا،اب قانون کی رو سے دوبارہ ریاست کا باقائدہ حصہ ہوں گے۔
برطانیہ اور قلات کے درمیان 1876کا جو معاہد ہ ہوا تھا اس میں قلات کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اور 4اگست 1947ء کے اسٹل ایگریمنٹ میں اسے قبول کیا گیا تھا اور پاکستان اس معاہدے کا ایک دستخط کنندہ تھا۔

برطانوی سرکار کا یہ غیر آئین کردار جس میں قانون کی دھجیہ اڑائی گئی جہاں اعلان آزادی کے بعد ریاست قلات ان تمام علاقوں پہ حکومت کرتا ہوا نظرآتا جو تاریخی اعتبار سے اس کا حصہ تھے، لیکن انگریزوں نے اپنے بنائے گئے قوانین کو زمین بوس کرتے ہوئے ایسا ہونے نہیں دیا۔ جس کا ذکر میر گل خان نصیر اپنی کتاب تاریخ بلوچستان میں یوں بیان کیاہے کہ”مسٹر فل نے قلات کی مکمل آزادی کی صورت میں خدشات کا ذکر کرتے ہوئے دیوان کو خبر دار کیا کہ مکمل آزادی کی صورت میں شاید ہم روس یا کسی دوسرے ملک سے اپنی حفاظت نہ کرسکیں۔ اس لیے پاکستان کو موقع دینا چاہیے“۔ یہ ہے برطانوی سرکار کا وہ کردار جس میں انہوں نے ہی پاکستان کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اس خطے کا چوکیدار بنا کے یہاں بسنے والے ا قوام کو غلامی اور محکومی کے جنم کی نظر کردیا۔

اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ برطانیہ کی ہی یہ خواہش تھی کی بلوچستان پاکستان کا حصہ بنے جس کے لیے وہ کبھی بھی بلوچستان کو متحد ہونے نے نہیں دی۔جب لیز پہ لیے گئے علاقوں کے حوالے سے وہاں کے نمائندوں نے برطانیہ کو آگاہ کیا تو برطانیہ نے ہٹ دھرمی کا ثبوت دیا۔ اس حوالے سے مری اور بگٹی علاقوں کے سرداروں، سردار دودا خان مری اور سردار محمد اکبر خان نے برطانوی حکومت کو خانیت میں شامل ہونے کے اپنے فیصلے کے متعلق تحریر ی یاداشت پیش کی، ڈیرہ جات کے دیگر سرداروں نے خانیت میں شامل ہونے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔برطانویوں نے ان تما م درخواستوں اور خواہشات کو نظرانداز کیا۔۵۱

برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتوں کو یہ ادراک تھا کہ سوشلزم دنیا کے محکوموں کے لیے امید کی کرن ثابت ہورہی ہے اور اس حوالے سے بلوچستان جغرافیائی حوالے سے اہمیت اختیار کرچکا تھا اور اگر سویت یونین یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہوجاتا تو مغرب کے لیے لمحہ فکریہ بن جاتا،یا یوں کہہ سکتے ہیں دنیا یک طاقتی سانچے میں ڈھل جاتا۔لہذا برطانیہ کو سوشلزم کے خطرات کے پیش نظر اس خطے میں ایک مضبوط چوکیدار کی ضرورت تھی، جو اسے ہندوستان توڑنے کی صورت میں پاکستان کے نام سے مل چکا تھا۔اسی لیے بلوچستان کی آزادی کی راہ میں خلل ڈالنے کے لیے حکومت برطانیہ کی جانب سے بھی پاکستان پر دباؤ تھاکہ ریاست قلات کو آزاد ملک تسلیم نہ کیاجائے (حالانکہ 4اگست 1947ء کو ہی جناح اور اس کے حواریوں نے بلوچستان کی آزاد حیثیت تسلیم کرلی تھی) جس کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے اپنے انگریزآقاؤں کی آزمودہ گُر”لڑاؤ اورحکومت کرو”کی پالیسی کوبروئے کارلاتے ہوئے سرداروں سے مراسم بنائیں جہاں انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان میں شمولیت کی ترغیب دیناشروع کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے 17 مارچ1948ء کو جناح جام غلام قادر (جام لسبیلہ) دارالعمراء کا رکن نواب بائی خان گچکی اور نواب خاران میر حبیب اللہ نوشیروانی کو جانسا دینے میں کامیاب ہوگیا جس کے بعد انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی رضا مندی ظاہر کردی۔دنیا کا کوئی قانون اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ کسی ملک کے کسی حصے کو اس ملک کے قانون و آئین اور جمہوری اداروں کے برخلاف ہڑپ لیا جائے۔ لیکن پاکستان نے برطانوی سپہ سالار اور جناح جیسے مکار کی چالبازیوں سے اس غیر آئینی اقدام کو عملی جامہ پہنایا۔ پاکستان کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف ریاست قلات نے احتجاج اور مراسلے لکھے لیکن پنجابی سرکار اپنے انگریز آقاؤں کی آشیرباد کے نشے میں کسی آئینی اقدام کو خاطر میں لانے والے نہیں تھے۔

اس دوران خان احمدیار خان اس غیر قانونی اقدام کے خلاف آواز بلند کرنے کراچی میں موجود تھے اس کے باوجود بھی پاکستانی فوج کے چیف آف آرمی سٹاف جرنل سر ڈوگلس گریسی کے اشاروں پہ ہی پاکستانی فوج یلغار کرتا ہوا پہلے پہل ساحلی علاقوں سے پنجگور تک دھاوا بول دیا ازبعد ریاست قلات کے مرکزی شہر قلات پہ بھی27 مارچ 1948ء کو عسکری طاقت کے بل بوتے پہ قبضہ کرلیا۔اور یوں برطانیہ اپنے اس گھناؤنے عمل کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے انہیں پاکستانی دلال مضبوط شکل میں میسر آجاتے ہیں۔ اس حوالے سے پروفیسر فاروق بلوچ اپنی کتاب بلوچ اور ان کا وطن“ میں رقم طراز ہے کہ مارچ1948ء میں پاکستان نے مختلف حیلوں، بہانوں، لالچ اور جبر اًہر طرح سے آخر کاربلوچستان پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا۔۶۱ٌ

اور یوں تاریکیوں کا سفر شروع ہوگیا۔ ان تاریکیوں کے خاتمے کے لیے بلوچ قوم نے روزِ اول سے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا، جو چوہتر برس گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ راستہ کھٹن ضرورہے لیکن یہی مزاحمتی سرشت کامیابی کی دلیل ہے۔
ٌ
۔۔۔۔۔

حوالہ جات
1۔ پروفیسر ڈاکٹ فاروق بلوچ۔بلوچستان اور برطانوی مورخین۔بلوچی اکیڈمی۔اشاعت۔2018ء۔ص۔30
2۔ ایضاً۔ص۔47
3۔ فاروق بلوچ۔ بلوچ اور ان کا وطن۔فکشن ہاوس۔اشاعت۔2013ء۔ص۔157
4۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری۔ عشاق کے قافلے19 میر عبدالعزیز کرد۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز۔اشاعت۔2016۔ص۔9
5۔ میرگل خان نصیر۔تاریخ بلوچستان۔قلات پبلشر۔اشاعت پنجم۔2010ء۔ص۔ 496
6۔ ایضاً
7۔ فاروق بلوچ۔ بلوچ اور ان کا وطن۔فکشن ہاوس۔ص۔158
8۔ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ۔دی پرابلمزآف بلوچستان۔ ترجمہ۔ریاض محمود انجم۔بلوچستان کا مسئلہ۔جمہورپبلکشن لاہور۔اشاعت۔2014۔ ص۔205
9۔ایضاً۔۔ص۔205-206
10۔ میرگل خان نصیر۔تاریخ بلوچستان۔ص۔531
11۔ حمیدبلوچ۔تاریخ مکران۔سٹی بک کراچی۔اشاعت۔2009ء۔ص۔393
12۔ میر محمد علی تالپور۔پلید ترباشد۔ترجمہ۔لطیف بلیدی۔سنگر پبلیکشن۔اشاعت۔ 2017ء۔ص۔72
13۔ میرگل خان نصیر۔تاریخ بلوچستان۔ص۔548
14۔ ایضاً
15۔ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ۔دی پرابلمز آف بلوچستان۔ ترجمہ۔ریاض محمود انجم۔بلوچستان کا مسئلہ۔ ص۔211
16۔فاروق بلوچ۔ بلوچ اور ان کا وطن۔ص۔162

Exit mobile version