شاری بلوچ، بلوچ مزاحمت کی طلوع ِصبح کی نوید- ڈاکٹر جلال بلوچ

0
309

بقول ڈاکٹر مبارک علی”تاریخ دراصل عورتوں کی ہے۔“ اگر ہم تاریخ کا بخوبی مطالعہ و مشاہدہ کریں تو عورت کے گراں قدرخدمات سے آشناء ہوں گے۔ عورت جو پہلی معلمہ ہے، عورت کے دم خم سے زرعی انقلاب معرض وجود میں آیا، عورت نے انسان کو غاروں سے نکال کر سماجی زندگی کی راہ دکھائی جس کی بدولت سماجی اور ازبعد مدنی و ریاستی زندگی ممکن ہوئی۔

عورت نے جہاں عام معاشرتی زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دی ہیں وہاں حوا کی بیٹی مزاحمتی یا جنگی میدان میں بھی منفرد مقام رکھتی ہے۔ وہ چاہے ویتنام کی ترنگ بہنوں کا آزادی کی جنگ میں کارنامے ہو ں، سندھ کی بیٹی بلقیس (باگھل بائی) کا سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمت، افغان شیرنیاں بخت نامہ، ملالئی انا، نازوتوخی، ہندوستان کی جھانسی کی رانی، رضیہ،رانی ویلیونچار، کمانڈر کھلی، فرانس کی جون آف آرک یا پھر بلوچستان کی بانڈی،حانی، مائی بیبو، بی بی زینب، گل بی بی۔۔۔ ان کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہیں جنہیں یہ اقوام فخریہ بیان کرتے ہیں۔

”ماضی خود کو دہراتی ہے“ یہ قول مشہور ہے۔ جس طرح بلوچ تاریخ میں عورتوں نے گراں قدر کارنامے سرانجام دیے ہیں انہی کے نقش پا پہ چل کر گزشتہ دنوں ایک اور بلوچ بیٹی خود کووطن پر نچارو کرگئی۔ بلوچ بیٹی ”شاری“ کا یہ حملہ فدائی تھا، یہ بلوچ جنگِ آزادی میں پہلا موقع ہے جہاں ایک عورت قوم کے روشن مستقبل کے لیے دشمن پہ بجلی بن کر گرپڑی۔ ویسے بھی فدا ئی حملہ عورت کی ایجاد ہے جہاں 1780ء میں جنوبی ہندوستان میں رانی ویلیونچیار کی ایک کمانڈر”کمانڈرکھلی“ نے ایسٹ انڈیا کمپنی پہ حملہ کیا جس کی وجہ سے اس جنگ میں ہندوستانیوں کو فتح نصیب ہوئی۔

اکتیس سالہ شاری بلوچ کیچ کے علاقے نظرآباد سے تعلق رکھتی تھی۔ شاری کا پورا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور وہ خود بھی ایم اے، ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کرچکی تھی اور اب زولوجی میں ایم فل کرناچاہتی تھی لیکن وطن کی دفاع نے انہیں مزید تعلیم کے حصول کا موقع نہیں دیا اور یوں وہ 26اپریل کو کراچی میں چائینز سامراج پہ فدائی حملہ کرکے خود کو تاریخ میں منفرد مقام پہ پہنچایا۔

شاری بلوچ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بلوچ طلباتنظیم بی ایس او آزاد سے کیا اس ضمن میں ہونے والے ایک مظاہرے میں اس کی تصویر بھی نظروں سے گزری۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی اداروں میں تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پہ پہنچ چکی تھی کہ قوم اور دنیا کو جگانے کے لیے کچھ ایسا کارنامہ سرانجام دیا جائے جو انہیں میرے وطن اور قوم کے بارے میں سوچنے پہ مجبور کرے۔لہذا اسی نظریے اور فکر نے انہیں بہروں کو جگانے کے لیے اکسایا۔ وہ جانتی تھی کہ غلامی سے نجات کے لیے جب تک منفرد عمل نہیں کیا جائے گا تب تک منزل پہ پہنچنا ممکن ہی نہیں اور یوں انہوں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال بلوچ تاریخ میں ناپید ہے۔

شاری بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچ قوم اور دیگر آزادی پسندقوتوں نے جہاں اس امر کو زوروشور سے سراہا تو دوسری جانب قابض کے چند گماشتے اس کے نمک کا قرض ادا کرتے رہے لیکن دنیا شاید ہے کہ نمک کے مقابلے میں مٹی کا قرض ادا کرنے والوں کا عمل انہیں تاابد سرخرو رکھتی ہے۔ ویسے بھی جنگوں اور مزاحمت سے نابلد افرد احمقانہ اور قیاس آرائیوں پہ مبنی تنقید کا سہارا لیتے ہیں لیکن جنہیں جنگی علوم پہ دسترس حاصل ہوں یا وہ اس عمل کا حصہ ہوں تو وہ ہر اس عمل کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو قوم میں حرارت پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بلوچستان کی بیٹی شاری بلوچ کا یہ عمل جو بلوچ تاریخ میں سب سے منفرد مقام کا حامل ہے، طلوع صبح کی نوید ثابت ہوگی۔

بشکریہ۔ ادارہ سنگر

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں