Site icon News Intervention

پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کے زمینی حقائق پر تجزیاتی رپورٹ , نیوز انٹرونشن

جموں کشمیر کے ایک حصے پہ پاکستان کا قبضہ ہے، جبکہ ایک حصہ چین کے پاس ہے چین کے پاس جو حصہ ہے وہ پاکستان نے تحفے کے طور پہ چین کو دیا ہوا ہے۔

ایک تجزیاتی رپورٹ میں ہم نے پاکستان کے مقبوضہ کشمیر،جسے آزاد کشمیر یا پاکستانی زیر انتظام کشمیر کہا جاتا ہے،وہاں کی زمینی حقائق کو جاننے کی کوشش کریں گے،۔نیوز انٹرونشن کی تحقیاقی ڈسک نے پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کی صورت حال پر ایک جامعہ سروے کیا ہے،.جس میں درج زیر نکات شامل ہیں۔

1، ڈولپمنٹ\ ترقیاتی کام
2۔آبادی و شرع غربت اور مہنگائی،روزگار
3۔جی ڈی پی
4۔سڑکیں
5۔تعلیمی نظام
6۔غیر مقامی آبادکار
7۔بجلی
8۔سیاسی جماعتیں پاکستانی؎۔ لوکل
9،قدرتی وسائل
10۔بینکگ سسٹم
11۔عام عوامی سوچھ
12۔پاکستانی فوج کے کرائم
13۔منشیات
14۔مدرسے اور شدت پسندی کے کیمپؤں
15۔ انٹر نیٹ

پاکستانی زیر قبضہ کشمیرجسے عرف عام میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کہا جاتا ہے،اور پاکستان جو اس زمین پر قابض ہے اسے آزاد کشمیر کہتا ہے اور ایک نام نہاد اور ڈمی وزیر اعظم اور قانون ساز ادارہ بھی بنایا گیا ہے جسکی ساری باگ دوڑ پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے۔واضح رہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعظم کو باقاعدہ کشمیر امور اسلام آباد چلاتا ہے اور کٹھ پتلی وزیر اعظم ایک بھی سرکاری ملازم کو ٹرانسپر کرنے سے بھی قاصر ہے۔اب جائزہ لیتے ہیں کشمیریوں کے سرزمین کی موجودہ صورت حال کے مختلف پہلوؤں کا جس پر پاکستان قابض ہے۔

1، ڈولپمنٹ\ ترقیاتی کام

پاکستانی زیر کنٹرول علاقے میں کوئی ڈویلپمینٹ نہیں ہے۔ نہ کوئی چھوٹی انڈسٹری نہ کوئی بڑے پیمانے کا کاروبار نہ روزگار کے مواقع۔ حتیٰ کہ ایک ماچس کی فیکٹری تک لگانے کے لئے قابض قوتوں کی اجازت کی ضرورت ہے جوکہ ملتی نہیں ہے اس کی وجہ سے پینتالیس لاکھ کی آبادی پہ مشتمل اس خطے کے نوجوان پاکستان اور باہر ممالک کی خاک چھاننے پہ مجبور ہیں۔

اس وقت پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی انڈسٹری نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خاص ترقیاتی کام ہوئے ہیں جنکا ذکر کیا جا سکے،اسکی سب سے بڑی وجہ پاکستان کا کشمیر کی زمین پر قبضہ اور یہاں کے عوام کو اپنا محتاج بنانا ہے۔کوٹلی میں ایک نیچرل واٹر پلانٹ ہے اسکا مالک بھی فوجی اور کچھ پنجابی کاروباری ہیں۔ دریاوں پہ ڈیمز بنائے گے اس کا فائدہ بھی یہاں کی عوام کو نہ ہو سکا۔

2۔آبادی و شرع غربت اور مہنگائی،روزگار

آبادی پینتالیس لاکھ سے زائد ہے جس میں سے تیس فیصد لوگ خط غربت سے بھی نچلی زندگی گزانے پہ مجبور ہیں باقی بس جی رہے ہیں۔
پورپ یو ایس اے عرب امارات سمیت پوری دنیا میں یہاں کا محنت کش اپنی محنت بیچتا ہے۔ لوکل کاروبار میں دوکانداری مال مویشی پالنا وغیرہ کے علاوہ کچھ کام نہیں ملازمت وغیرہ کی اگر بات کی جائے تو سرکاری نوکری کے علاوہ باقی آپشن نہیں ہے۔ سرکاری نوکری حکمران کلاس نے اتنی مشکل کردی ہے کہ سرکاری نوکری حاصل کرنے والا اچھے خاصے پاپڑ بیلتا ہے۔ سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لئے حکمران طبقے کا ٹاوٹ ہونا اشد ضروری ہے اپنے حلقے کے امیدوار کی خوشنودی اس کے لئے نعرے لگانا ہر فورم پہ اس کا ڈیفنس کرنا فرض ہے اس کے بعد جب متعلقہ امیدوار اقتدار حاصل کر لیتا ہے تو نوجوان کے پاس رشوت کے لئے بھاری رقم اور بیوروکریٹس سے تعلقات ہونا ضروری ہیں تا کہ وہ تقرری کر سکے میرٹ نام کی کوئی چیز پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں نہیں کوئی اوپر سے اقرباء پروری کا یہ حال ہے کہ بیوروکریٹ اور حلقہ امیدوارن کے رشتہ دار ہر جگہ ہر ادارہ میں موجود ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ عہدے کے اہل بھی نہیں۔
روزگار کے مواقع نہ ہونے کیوجہ سے پاکستان کے ہوٹلوں پہ برتن مھانجتے ہیں یا عرب کے تپتے صحراوں کی ریت چھانتے ہیں۔ یا کسی اور ملک میں اپنی محنت بیچنے پہ مجبور ہیں۔
گندم وغیرہ یا باقی اشیائے خورونوش پاکستان کی نسبت مجموعی طور پہ چھ سے دس فیصد تک یہاں مہنگی ہیں۔

3۔جی ڈی پی

مقبوضہ کشمیر کی کوئی اپنی جی ڈی پی نہیں ہے، بلکہ پورا سسٹم پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔ اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جی ڈی پی کا انحصار پاکستان پر ہے۔ اس لیے کہ یہ صرف ڈمی آزاد ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کٹھ پتلی وزیر اعظم کے پاس کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کے اختیار بھی نہیں ہیں۔

4۔سڑکیں
ترقیاتی کاموں میں گلگت بلتستان بھی بہت پسماندہ علاقہ ہے وہاں کی سٹرکیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں حکمران طبقہ وہاں بھی اپنی حق حکمرانوں قائم رکھنے کے لئے عوام کا پسماندہ رکھے ہوئے ہے اسی طرح نام نہاد آزاد کشمیر میں بھی کوئی ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں سٹرکیں کھنڈرات کے مناظر پیش کر رہی ہیں ایک ضلع سے دوسرے ضلع کو ملانے والی سٹرکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں آدھے آدھے گھنٹے کا سفر ڈیڑھ گھنٹے تک چلا جاتا ہے۔ سڑکوں کی بدحالی کا عالم یہ ہے کہ آئے روز حادثاتکی وجہ سے لوگ جان سے ہاتھ ڈھو بیٹھتے ہیں،جسکی وجہ پاکستانی عسکری تعمیراتی کمپنی ایف ڈبلیو او ہے،سرکاری اور غیر سرکاری ٹھیکے اسی فوجی کمپنی کی دی جاتی ہیں اور اس سے سوال کرنے کی جرت کسی میں نہیں ہے۔

5۔تعلیمی نظام

تعلیم کی ریشو 85% ہے یہ بحث الگ کہ تعلیمی نظام کیسا ہے جو ہے اس کے اندر رہتے ہوئے شرح خواندگی %85 ہے ایم ایس سی، ایم فل، پی ایچ ڈی عام مل جاتے ہیں۔ لیکن روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم صرف ڈگریوں تک محدود ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ تعلیمی نظام یہاں کا بھی پاکستان کی طرح رٹہ ماسٹر ہی ہے ۔

تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے ایجوکیشن سیکٹر میں کوئی تبدیلی رونما ہونا تو دور کی بات سرکاری ایجوکشن سیکٹر مکمل طور پہ تباہی کے دھانے پہ ایک سوجھی سمجھی سازش کے تحت پہنچایا جا رہا ہے تاکہ نجی سیکٹر کو فروغ مل سکے مجموعی طور پہ چار بڑی یونیورسٹیز ہیں ایک خواتین کی ہے لیکن اس کے باوجود پرائیویٹ تعلیمی نظام عروج پہ ہے مارکس کے پیچھے دوڑ کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے اور نوجوانان کے پاس ڈگریاں ان کے اخراجات کی رسیدوں سے سوا کچھ نہیں۔

پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی سیکٹر میں پرائمری سے لیکر ہائیر ایجوکیشن تک تمام سکول و کالجز موجود ہیں تمام اضلاع میں پرائمری مڈل سکول زیادہ تعداد میں ہیں جبکہ ہائی سکول آٹھ دس جبکہ کالجز دو دو تین تین موجود ہیں جبکہ پرائیویٹ کی ریشو زیادہ ہے۔

6۔غیر مقامی آبادکار

باہر سے افغانستان اور کے پی کے سے بڑی تعداد میں لوگ آباد ہیں جن کے کپڑے سکریپ قالین اور دوکانداری سے جوڑے کاروبار ہیں کشمیر میں زمین کی ملکیت صرف و صرف خطہ جموں کشمیر کا ڈومیسائل رکھنے والا شخص ہی حاحل کر سکتا ہے اس لئے باہر کے لوگ یہاں کی شہریت تو نہیں رکھتے لیکن یہاں کے لوگوں کے نام پہ یا جگہ کرائے پہ لیکر بیٹھے ہی۔ جبکہ پنجاب کی بڑی آبادی کو کشمیر کے ڈومیسائل دئیے گئے ہیں اور کاروبار پر ان لوگوں کا قبضہ ہے۔

7۔بجلی

دنیا کانمبر 6بڑا ڈیم منگلا ڈیم کشمیر میں واقع ہے جو اس وقت 2300 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے نیلم جہلم پاور پروجیکٹ ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے ہولاڑ ڈیم آذاد پتن ڈیم اور مختلف ڈیمز پہ کام جاری ہے,لوکلی چھوٹے ڈیمز کو ملا کرچار ہزار میگاوٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے، لیکن ان ڈیمز پہ کشمیری عوام تو کیا پاکستان کے گماشتہ مظفرآباد کی اسمبلی میں بیٹھنے والی حکمرانوں کے پاس بھی کنٹرول نہیں اس بجلی پہ ڈائریکٹ واپڈا کا کنٹرول ہے واپڈا یہاں سے ساری بجلی پاکستان لے جاتا ہے اور پھر وہاں سے مہنگے داموں واپس کشمیر کے محکمہ برقیات کو فروخت کرتا ہے محکمہ برقیات کا کام صرف ترسیل ہے کب بجلی بند کرنی ہے کتنی لوڈ شیڈنگ کرنی ہے یہ تمام تر فیصلے واپڈا کرتا ہے۔ چارسو میگا واٹ بجلی اس خطہ کی ضرورت ہے جبکہ مجموعی طور پہ چار ہزار کے قریب میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور چار سو میگا واٹ نہیں ملتی اور یہاں کی عوام لوڈشیڈنگ براشت کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔
بجلی 50 یونٹ تک 3.95 جبکہ 50 یونٹ سے اوپر 7.74 فی یونٹ چارج کئے جاتے ہیں جبکہ 100 یونٹ پلس ہونے پہ 11.53 پیس فی یونٹ چارج ہیں ہر طرح ہر 50 یونٹ کے بعد بجلی کے ریٹ ڈبل ہوتے ہیں نیلم جہلم پروجیکٹس 2021 سے فتگشنل ہے لیکن نیلم جہلم سرچارج آج بھی بل میں لگا کر دئے جاتے ہیں،بجلی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ آٹھ گھنٹوں سے بھی تجاویز کر جاتا ہے۔

دوسری جانب کشمیر میں بجلی کا بل کیسے آتا ہے کتنا آتا ہے اور کیا کیا ٹیکس شامل ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہیں نل پہ یہ جو100یونٹ کی قیمت لگائی گئی ہے 5روپے 79 پیسے اور اس کے اوپر 15 یونٹ کی قیمت لگائی گئی ہے 8 روپے 11 پیسے اب یہ جو ٹوٹل پیسے بنے ہیں 115 یونٹ بجلی استعمال ہوئی۔ اس قیمت کے اوپر گورنمنٹ کے دو قسم کے ٹیکسیز ہوتے ہیں سب سے پہلا ٹیکس ای ڈی (ED)اس کو لکھتے ہیں الیکٹرک سٹی ڈیوٹی (Electricty Duty 1.5% یہ بل کے ٹاپ پہ مینشن ہوتی ہے، وی ڈی یہ نیچے 1.5% یہ ٹیلی ویژن فیس اور اس کے بعد جنرل سیل ٹیکس یہ ہوتا ہے سترہ سے اٹھاہ % جتنی بجلی استعمال ہوئی اس کا سیلز ٹیکس یہ ہوا ،وہ چارجز جو لوگوں نے دینے ہی ہوتے، فیول پرایس ایڈجسٹمنٹ (FPA) اس کو تھوڑا گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے فیول کا مطلب ہوتا ہے ایندھن۔ یا جس کے استعمال سے کوئی چیز پیدا ہو یا حرکت کرئے اگر ہم ہائیڈرل پاروپلانٹ سے بجلی لے رہے ہیں تواس ہمارا فیول ہوگیا پانی اگر ہم سولر سے لے رہے ہیں تو ہمارا فیول ہو گیادھوپ، اگر تیل سے پیدا کریں تو فیول تیل اگر کوئلے سے پیدا کریں تو فیول ہوگیا کوئلہ اگر کسی عام آدمی سے پوچھیں تو ظاہر ہے اس کا کہنا ہوگا جتنا سستا فیول استعمال کریں گے اتنی بجلی سستی ملے گی۔ آج سے کم از کم پچیس تیس سال قبل نیچرل ریسوسز کا استعمال کرنے کے بجائے لوکل ٹھیکداروں کو ہائر کیا یا لانچ کیا کہ وہ بجلی بنائیں اور اس کے بعد گورنمنٹ کو بیچیں۔ان پرائیویٹ کیمپینز کو ہم کہتے ہیں (IPPs) Indipendent power producers یہ آئی پی پیز دنیا کی وہ واحد مخلوق ہے جو دنیا کے مہنگے ترین ایٹم ایندھن کروڈ آئل سے بجلی پیدا کرتے ہیں جو تیل زمین سے نکلتا ہے اس سے بجلی بنا رہے ہیں۔ پاکستان گورنمنٹ ادھار تیل لیتی ہے اور وہ تیل ان کو دیتی ہے کہ آپ اس سے بجلی بنائیں اور ہمیں سیل کریں جب دنیا میں کروڈ آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب ایک یہ چیز بل پہ ایڈ ہے گیول پرایس ایڈجسٹمنٹ۔ یہ بنیادی طور پہ وہ چارجر ہیں جو بجلی بنانے کے لئے فیول لیا جاتا ہے اس کے پیسے ہیں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو بجلی استعمال کی جاتی ہے اس کے بھی پیسے اور بجلی پیدا کرنے کے لئے جو فیول استعمال ہوا اس کے بھی چارجز۔ جیسے کہ ہم نے ایک دوکان سے کوئی چیز خریدی اور دوکاندار کو
چیز کے پیسے بھی دئے ساتھ میں دوکان کے کرائے کی مد میں اور دوکاندار کے ساتھ سیلز مین کی تنخواہ کی مد میں الگ چارجز بھی دین یعنی ایک دوکان پہ ایک چیز 100کی ہے جبکہ ہم 150 ادا کریں۔ جبکہ دوسری طرف پوری دنیا میں نیچرل ریسورسز سے بجلی پیدا کی جاتی ہے اور ہم جان بوجھ کہ مہنگا ایندھن بجلی بنانے کے لئے اسعتمال کرتے ہیں یاکہ پرائیویٹ کمپنیز کو فائدہ ہو۔ پاسکتان کے شمالی علاقہ جات میں پانی کے وسیع پانی کے ڈخائر ہیں جو کہ بہت کم بجلی کے پیداوار کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور پاکستان میں سالہسال دھوپ رہتی ہے جو کہ فری بجلی پیدا کرنے کا بہت بڑا زریعہ ہے جو حکومتی توجہ کا منتظر ہے اب مزے کی بات ایک اور ہے اس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے اوپر اس کا جی ایس ٹی ہے اور پھر اس کی اپنی الیکٹرک سٹی ڈیوٹی بھی ہے وہ بھی یہاں پہ ایڈ ہوتی ہے جب تک پرائیویٹلایزشن ختم نہیں ہوتے یہ فیول پرایس ایڈجسٹنمٹ عذاب مسلط رہے گا بجلی کی کاسٹ میں کمی لانے کے لئے ان کاخاتمہ ضروری ہے اب آتے ہیں ایک اور ضروری چیز نیلم جہلم سرچارج نیلم جہلم ہائیڈورو پاور پراجیکٹ پاکستان کا رن آف ریور پلانٹ ہے رن آف ریور ہائیڈرو پاور پلانٹ وہ ہاتا ہے جس پہ کوئی ڈیم بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی پانی کو سٹور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بس چلتے ہوئے دریا کی اوپر ٹربائین لگا کہ اس کے پریشر سے بجلی پیدا کی جاتی ہے آزاد کشمیر مظفر آباد میں واقع یہ نیم جہلم پارو پروجیکٹ کی ٹوٹل کیپسٹی 969میگا واٹ ہے جب کبھی بھی گوگل پہ سرچ کریں گے تو آپ کو نیلم جہلم سرچارج یہ دئکھنے کو ملے گا it was a goverments strategy to raise finances for cinstructing the neelum jhelum hydropower project کہ اس نیلم جہلم پروجیکٹ کو بنانے کے

لئے جتنے پیسے چاہیے پاکستان کے جتنے بھی بجلی کے کسٹمر ہیں ان کو جتنا بھی بل آئے گا اس سے 0.10% پر یونٹ کے حساب سے ادا کرنا ہوگا۔ 14 اگست 2018 کو اس پروجیکٹ کوا فتتاح کہ بعد فنگشنل کیا گیا تھا اور اس پہ چارجز ابھی بھی لئے جا رہے ہیں۔

بجلی کی سب سے بڑی پیداوار کا زمین خود بجلی سے محروم ہے یہی بات ہوئی جسیے کہ مقبوضہ بلوچستان میں گیس،پٹول دیگر معدنیات سے مالا مال بلوچ آج اپنی زمین پر ان تمام چیزوں سے محروم ہیں۔کشمیر و گلگت میں بھی لوگ سراپا احتجاج ہیں مگر یہ سارے احتجاج وقتی ہیں۔

8۔ لوکل اور پاکستانی سیاسی جماعتیں
یہاں کی سیاسی پارٹیاں ان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی یا پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی دم چھلہ سیاسی پارٹیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہے۔
ریاستی پارٹیوں میں قوم پرست ترقی پسند پارٹیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ الیکشن کمیشن میں وہی پارٹی رجسٹرڈ ہو سکتی ہے جو الحاق کی حامی ہے دوسری پارٹی کو رجسٹرڈ ہی نہیں کیا جاتا۔ یہ کالا قانون اس لئے ہے کہ تاکہ یہاں کے وسائل کی کھلم کھلا لوٹ کھسوٹ کی جا سکے پاکستان کے سامنے کوئی بغاوت نہ کر سکے۔

لوکل پارٹیوں میں مسلم کانفرنس جو پاکستان الحاق نواز ہے جبکہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ،جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی، متحدہ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی، عوامی ورکر پارٹی، این ایس ایف، جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی، عوامی محاز، یہ قوم پرست ہیں۔
گلگت بلتستان کی صورتحال بہت مختلف ہے گلگت بلتستان میں پاکستان نواز پارٹیاں کافی مضبوط ہیں وہاں قوم پرست تنظینوں نے 2010 کے بعد عوام میں کام شروع کیا جس کے نتائج کچھ لیٹ آئیں گے پھر بھی چند ایک لوگ ہر فورم پہ ڈہسکس ضرور کرتے ہیں۔

9،قدرتی وسائل

یہ خطہ وسائل میں کوئی کمی نہیں رکھتا پانچ دریا اس خطے سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں دیسی جڑی بوٹیاں جنگلات بڑے پیمانے پہ موجود ہیں ایسی جڑی بوٹیاں جن کو استعمال کرکہ پوری دنیا کی میڈیسن کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں مہنگی ترین لکڑی کے جنگلات اور قیمتی پتھروں کا ذخیرہ ہے ایسے پتھر حو دنیا میں کیرٹ کے حساب سے بکتے ہیں روبی نیلم گریناٹ ماربل لوہا جیسی معدنیات بھی موجود ہیں دریاوں پہ ڈیمز بنائے گے اس کا فائدہ بھی یہاں کی عوام کو نہ ہو سکا۔
صرف پنجابی و فوجی اشرافیہ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

10۔بینکگ سسٹم
بینک میں ایک بینک کشمیر کا ہے کشمیر بینک کے نام سے جانا جاتا ہے جو زرعی قرضے بھی دیتا ہے اس کے علاوہ باقی تمام دوسرے پاکستانی بینک موجود ہیں جن میں HBL. mCB. UBL. BAH. ABL JS Bank وغیرہ لوکل بینک ایک ہی ہے۔

11۔عام عوامی سوچھ

سرمایہ دارانہ یا جاگیر دارانہ عہد میں عوامی سوچ بھی ایسی ہی ہوتی ہے جیسی وہ چاہیں۔ نام نہاد آزاد کشمیر میں بھی پاکستان کے حکمران طبقے کی سوچ کے مطابق سوچ پروان چڑھتی رہی ایک لمبے عرصے تک کشمیر کو انڈیا سے آزاد کروانا ہی آزادی سمجھا جاتا رہا یوں یوں وقت گزرتا گیا انسانی سوچ نے بھی رخ بدلنا شروع کیا اب کسی حد تک یہ سوچ کامیابی کیطرف گامزن ہوچکی ہے کہ پاکستان کا غاصبانہ قبضہ ہے یہاں پاکستانی فوج بدمعاشی سے بیٹھی ہے اور اس کو نکالنے کے لئے عوامی مزامت کی ضرورت ہے اور یہ مزمت شدت بھی اختیار کر سکتی ہے تھوڑا وقت درکار ہے چیزوں کو ہاں البتہ اسلامی فوبیا میں۔کمی لانے کے لئے کام کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مذہبی انتہا پسندی بہت موجود ہے جو اصل لڑائی لڑنے والوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے

12۔پاکستانی فوج کے کرائم

پاکستان فوج تو ویسے کرپشن کا گڑھ ہے اندر کی کریشن تو الگ بات ہے لیکن ظلم کی بات یہ ہے کہ باڈر ایریا جہاں فوج آباد ہے وہاں کشمیری ماوں بہنوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں مائیں بہنیں تو خیر چھوٹے خوبصورت بچوں کو بھی معاف نہیں کرتے زنا اور عیاشی کے اڈے بن گے ہیں بارڈر ایریاز پر لوگ بچارے اس فوجی بدمعاشی کے آگے بے بس ہیں کیونکہ بولنے والی کی لاش ملتی ہے یا کو مقدمہ درج کرکہ پولیس مقابلے میں مارا جاتا ہے یا کسی کو کسی جھگڑے میں ماروا دیا جاتا ہے فوج کبھی اپنا نام سامنے نہیں نہیں آنے دیتی۔ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین،بچے،،لڑکیاں پاکستانی فوج کے سیکس سلیب بنا دئیے گئے ہیں،خود کشمیری رسرچر بھی اس پر خاموش ہیں،کبھی کبھار ایک ٓدھ واقع ہی رپورٹ ہو جاتی ہے اور پھر اس کیس کو دبا دیا جاتا ہے۔

13۔منشیات
ایک سوجھی سمجھی سازش کے تحت یہاں بھی منشیات کو عام کیا گیا ہے کالجز یونیورسٹیز کے طالب علموں سمیت نوجوان نسل بہت تیزی سے منشیات پہ لگ رہی ہے جو حکومتی سر پرستی میں۔ہو رہا ہے بلکہ کئی حکومتی اراکین کا دھندہ منشیات سمگلنگ ہے،ہندوستانی کشمیر میں یہاں سے منشیات کا ایک بڑا کاروبار اور اسمگلنگ بھی ہو رہا ہے۔ ایک عالیہ رپورٹ کے مطابق پولیس اور خخفیہ ادارے کے اہلکار اس میں برائے راست ملوث ہیں اور نوجوان نسل میں اس کو پھیلا رہے ہیں جو خطرناک صورتحال ہہو سکتی ہے۔

14۔مدرسے اور شدت پسندی کے کیمپؤں

جموں کشمیر نام نہاد آزاد کشمیر مذہبی شدت پسندی میں سر فہرست رہا ہے لیکن 1990 کے بعد لیفٹ کے خیالات پروان چڑھنا شروع ہوئے تو بہت کم ہی سہی لیکن کسی حد تک سیکولر مائنڈڈ لوگ پیدا ہوئے جس کے باعث بہت ہلکے پیمانے پہ ہی سہی لیکن مزاحمت پیدا ہوئی لیکن اب بھی تھوڑا تفصیل سے دیکھا جائے تو جموں کشمیر کے دس اضلاع میں سے مظفر آباد۔ نیلم۔ ہٹیاں بالا۔ فاروڈ کہوٹہ میں آج بھی کثرت سے شدت پسندی پائی جاتی ہے ایک اندازے کے مطابق ان 4 اضلاع میں 32 دینی مدارس ہیں جو باقاعدہ دہشت گردوں کی فیکٹریاں ہیں اسی طرح باغ اور راولاکوٹ میں بھی سپہ صحابہ۔ لشکر طیبہ۔ لشکر جھنگوی۔ جماعت الدعوہ۔ کے لوگ موجود ہیں جن کا کام ہی صرف خود کش بمبار اور مزہبی انتہاء پسند پیدا کرنا ہے۔ایسے لوگ کھلے عام اپنی ایکٹیویٹز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دینی مدارس کے ساتھ ساتھ این جی اوز بھی چلاتے ہیں اور فلاحی کام کے نام پہ کروڑوں اکھٹا کرتے ہیں جو کہ اپنے مشن پہ کام کرنے کے کام آتے ہیں

15۔انٹرنیٹ،مواصلاتی نظام

پوری دنیا میں بہت تیزی سے ترقی جاری ہے یہاں تمام کاروبار اور روزگار آن لائن ہوتے جارہے ہیں وہاں اس خطے کو طاعونی طاقتوں کی ایما پہ جان بوجھ کہ پسماندہ رکھنے کے لئے آخری ہتھکنڈے بھی استعمال ہو رہے ہیں دنیا فائیو جی پہ پریکٹس کر رہی ہے جبکہ کشمیر میں تھری کے بی پی ایس کی سپیڈ کو فور جی کے نام پہ بیچا جا رہا ہے.
انٹرنیٹ سروسز پریکٹیکل میں ٹو جی چلتا ہے جبکہ کیمونیکشن کمپنیز کیطرف سے فور جی کے نام پہ لوٹا جاتا ہے انٹرنیٹ یا کالز کے چارجز سیم پاکستان کی طرح یہاں بھی لاگو ہیں پاکستان کے دفاعی اداروں کیطرف سے کشمیر میں انٹرنیٹ نہیں چلانے دیا جاتا کیونکہ پی ٹی سی ایل ان کی کمپنی ہے وہ کسی پرائیویٹ کمپنی کو یہاں انویسٹمنٹ کرنے ہی نہیں دیتی بلکہ ماضی میں جیز کمپنی نے اجازت لئے بغیر فور جی سروس ایک بوسٹر جو ضلع باغ کے ایک گاوں سدھن گلی میں لگا ہے سے چلا دی خفیہ اداروں کیطرف سے یہ ایلیگیشن لگا کہ کیس کروا دیا گیا کہ سرکار کی زمین میں بوسٹر سرکار کی اجازت کے بغیر لگا ہے عدالت نے بوسٹر اٹھانے کا حکم دے دیا جبکہ بوسٹر 2005 میں لگا تھا اور کمپنی نے زمین کے مالک کو جگہ کے پیسے بھی دے دئے تھے جو چودہ سال تک چلتا رہا کوئی مسئلہ سامنے نہ آیا فور جی چلاتے ہی گورنمنٹ کو یاد آ گیا کہ جگہ سرکار کی ہے۔

Exit mobile version