بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں طلبا کی جبری گمشدگیوں میں شدت کی نئی لہر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی ادارے روایتی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر طاقت اور تشدد کے ذریعے طالبعلموں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں اور تسلسل کے ساتھ طالبعلموں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔ ایسے غیر قانونی عمل طالبعلموں میں مزید خوف و ہراس اور ا?ن کے تعلیمی کیرئیر کو متاثر کرنے کا سبب بنیں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ ماہ 26 ستمبر 2022 کو کراچی کے علاقے لیاری کے رہائشی ایک بلوچ طالبعلم گلشاد بلوچ کو جبری طور لاپتہ کیا گیا اور کل بروزمنگل ایک اور بلوچ طالبعلم سعود ناز کو وِندر سے لاپتہ کیا گیا۔ طالبعلموں کی جبری گمشدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی درجنوں طالبعلم جبری گمشدگییوں کے اس غیر قانونی عمل کا شکار ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال قبل یکم نومبر 2021 کو بلوچستان یونیورسٹی شعبہ مطالعہ پاکستان کے دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جامعہ کے ہاسٹل سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور طالبعلموں کی ایک ماہ طویل دھرنے کے باوجود تاحال ا?ن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایریڈ ایگریکلچرل یونیورسٹی کے طالبعلم فیروز بلوچ کو بھی یکم مئی 2022کو راولپنڈی سے لاپتہ کیا گیا۔ فیروز کے دوستوں اور ساتھیوں کی احتجاجی دھرنے اور ریلیوں کے باجود تاحال انھیں منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اس طرح طالبعلموں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا اور سالوں منظر عام پر نہ لانا آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلوچ طالبعلموں کو تسلسل کے ساتھ بزور طاقت جبری طور پر گمشدہ کرنا طالبعلموں میں مزید خوف و ہراس پھیلانے کے مترادف ہے۔ اس طرح کے غیر قانونی اور غیر انسانی عمل طالبعلموں کو مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کا سبب بنیں گی اور سینکڑوں طالبعلم اپنی تعلیمی کیرئیر کو جاری رکھنے سے قاصر ہوں گے۔ بلوچ طالبعلموں کو ایک منظم سازش کے تحت جبری طور گمشدہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی محرک طالبعلموں کو تعلیم کے میدان سے دور رکھنے اور بلوچ سماج میں اعلی تعلیم کے حوالے سے ایک ایسے رائے کو پروان چڑھانے کی کوشش ہے کہ بلوچ عوام اپنے بچوں کو تعلیم سے دور رکھیں۔ اس طرح کے ہتھکنڈے کسی بھی صورت قبول نہیں اور ایسی پالیسیاں بلوچ نوجوان کو علم و شعور کے میدان سے دور نہیں رکھ سکیں گے۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ طالبعلموں کی جبری گمشدگی جیسے گھناؤناعمل میں تیزی کے خلاف تمام طلبا تنظیموں کو یکجا ہو کر جدوجہد کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ طلبا کی جبری گمشدگی میں لائی جانے والی تیزی کے خلاف26 اکتوبر کو بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے #SaveBalochStudents کے ٹیگ سے ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ چلائی جائے گی۔ ہم تمام طلبا تنظیموں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ مذکورہ کیمپین میں حصہ لیتے ہوئے بلوچ طالبعلموں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔