آج کی کہانی ڈیا رام جیٹھمل مل کالج کی ، جسے عرف عام میں ڈی۔جے کالج کہتے ہیں۔ ڈی جے کالج کراچی کی شناخت ہے کسی زمانے میں اس کالج میں تعلیم حاصل کرنا فخر تھا پاکستان کی نامور شخصیات نے یہاں سے تعلیم حاصل کی اب سندھ حکومت ایک سازش کے تحت اس کالج کو بند کرنے پرتلی ہوئی ہے اگر آج سندھ حکومت کو ایسا کرنے سے نہ روکا گیاتو یہ کل جامعہ کراچی میں بھی تالے لگادیں گے۔
یہ کالج اس وقت سندھ کے پڑھے لکھے لوگوں کی ایک تحریک کے نتیجے میں قائم ہوا۔اس زمانے میں سندھ میں کوئی کالج نہ تھا۔میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لیے طلباء کو بمبئی یا لاھور جانا پڑتا تھا جو کسی غریب کے بس کی بات نہیں تھی۔اس کالج کے تعمیر سے پہلے پورے سندھ سے صرف 17 طلبہ نے بمبئی اور لاھور سے گریجویشن کیا تھا۔
اس سلسلے میں مشہور سماج سدارک اور قانون دان دیوان ڈیارام گومل شہانی ،ڈیارام جیٹھمل ،دیوان مٹھا رام ،فتح چند آتما رام ،شون داس،بھرام جی کوتوال ،سیٹھ عالو مل(عالم چند)،ٹیکم داس،اودھارام مولچند ،دیوان ٹھلرام کھیم چند وزیرانی اور ھرچند راء وشنداس کے کوششوں سے انڈین ایجوکیشن کمیشن نے سندھ میں کالج کھولنے کی اجازت دی۔جس کے لیے اوپر دیے گئے نامور لوگوں نے چندہ اکٹھا کیا۔کراچی میونسپلٹی نے کالج کے لیے مفت زمین مھیا کی۔حکومت نے بھی اس سلسلے میں مدد کی۔
پہلے اس کالج کا نام “سندھ آرٹس کالج”رکھا گیا،اس کے لیے سب سے زائد چندہ پچیس ھزار دیوان ڈیارام جیٹھمل دیا تھا اس کے دیھانت کے بعد کالج کا نام “ڈی۔جی (ڈیارام جیٹھمل) سندھ کالج” رکھا گیا ۔
عمارت کے تعمیر سے پہلے 17 جنوری 1887 کالج کا افتتاح وائسرائے لارڈ ری نے کیا ۔شروع میں ٹھٹائی کمپاونڈ بندر روڈ پر کرائے کے مکان میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا ،پہلے سال 28 طلبہ کو داخلا دیا گیا۔بعد میں بندر روڈ پر تین بنگلوں میں میں کالج کو منتقل کیا گیا۔
15 اکتوبر 1893 کو کالج کو اپنی بلڈنگ منتقل کیا گیا جس کے سامنے کچھری روڈ اور دوسرے طرف جیمس اسٹریچن روڈ ہیں ۔اب نے راستوں کے نام تبدیل ہو چکے ہیں۔
ڈی جے کالج کی پر شکوہ اور خوبصورت بلڈنگ کا آرکیٹیکٹ کراچی میونسپلٹی کی مشہور انجینئر جیمس اسٹریچن ہیں۔یہ عمارت جیمس اسٹریچن ڈیزائن کردہ عمارتوں میں سب سے زیادہ خوبصورت عمارت ہے۔جہاں کالج کی عمارت ہے یہ پہلے برنس گارڈن کا حصہ تھا ۔رام باغ کوارٹر میں موجود یہ اس عمارت کے لیے موزائک ٹائلز Mosaic tiles بيلجيم سے منگوائے گئے تھے۔پہلی نظر میں یہ عمارت ایک محل کا تصور دیتی ہے۔مین گیٹ کے خوبصورت پلر کے اوپر پیشانی پر ایک گھڑی لگی ہوئی تھی اب وہاں خالی ہول ہے۔گنبد بھی انتھائی خوبصورت ہے۔دروازوں ،کھڑکیوں اور دوسری منزل پر جانے کے لیے سیڑھیوں میں لکڑی استعمال کی گئی ہے۔جن پر نفیس کام کیا گیا ہے۔
عمارت کی تعمیر اٹالین نشاط ثانیہ( Italian Renaissance ) اسٹائل پر ہے ،کہیں کہیں سندھ مدرستہ الاسلام کی عمارت کی طرع گوتھک طرزتعمیر بھی نظر آتی ہے ،کیونکہ یہ دونوں عمارتیں جیمس اسٹریچن نے ایک وقت میں ڈیزائن کی تھیں۔جیمس اسٹریچن نے ڈی جے کالج 1887, سندھ مدرستہ الاسلام 1889 اور ایمپریس مارکیٹ 1884 میں ڈیزائن کیے تھے۔
ڈی جے کالج عمارت کا سنگ بنیاد وائسرائے
ھند لارڈ ڈیفرن (Lord Dafferin ) نے 19 نومبر 1887 کو رکھا تھا ،سندھ مدرستہ الاسلام عمارت کا سنگ بنیاد وائسرائے ہند لارڈ ڈیفرن نے 14 نومبر 1887 کا رکھا تھا ،کچھ کتابوں میں دونوں کے سنگ بنیاد کی ایک تاریخ 14 نومبر لکھی ہوئی ہے۔کالج کا رخ کچھری روڈ( ڈاکٹر ضیاء الدین احمد روڈ) کے طرف ہے 29 فٹ کے گول لمبے پلر ہیں۔جنہوں نے عمارت کے خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے ۔کالج میں تھیٹر ھال بھی ہیں ،کالج میں 30 کلاس روم ہیں ۔
کالج کے سوئمنگ پول کے لیے چندہ فتح چند آتما رام نے دیا تھا اس کا نام “فتح چند آتما رام سوئمنگ پول باتھ” ہے۔
ڈی جے کالج جیمس اسٹریچن کے آرکیٹیکٹ کا ایک کمال شاہکار ہے۔
ڈی جے کالج کے عمارت کا افتتاح 15 اکتوبر 1893 سندھ کے کمشنر ایوان جیمز نے ایک پروقار تقریب میں کیا۔اس طرع یہ شاندار عمارت چھ سال میں مکمل ہوئی ،
عمارت کا کانٹریکٹر رنچھوڑ لین کے مشہور مارواڑی سلاوٹی نبی بخش سسیسوڈیا تھے،جس کے نام پر کراچی میں ایک روڈ اور ایک تھانہ بھی ہے۔
اس عمارت پر 186514 روپیہ لاگت آئی تھی۔
کالج کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر آر ۔ایم وامسلے تھے ۔1888 کو ڈاکٹر موسیس جان جیکسن پرنسپل مقرر ہوئے جو 1907 تک پرنسپل رہے۔
نومبر 1887 کو بی اے کے پہلے بیج میں 17 شاگرد امتحان میں شریک ہوئے جن میں سے صرف تین پاس ہوئے تھے
یہاں سے سب سے پہلے وادھو مل اودھارام نے نومبر 1888 کو گریجویشن کیا۔پہلا مسلمان یوسف علی مانڈی والا تھا جس نے گریجویشن کیا پہلی طالبہ مس مٹالڈا ھنٹ تھی جس نے یہاں سے گریجویشن کی۔اس لڑکی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بمبئی میں یہ پہلی سندھ کی لڑکی تھی جس نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔
1912 میں بہت سے ھندو لڑکیوں نے داخلہ لیا یہ اعزاز صاحب سنگھ چندا سنگھ کو جاتا ہے اس نے اپنی دو لڑکیوں کو داخل کیا اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کی۔۔
1936 میں یہاں سے سب سے پہلے جس مسلمان خاتون نے گریجویشن کیا وہ اختر سلطانہ بنت ھدایت تھی۔جس نے 1940 میں پورے سندھ سے بی اے آنرز می پہلی پوزیشن حاصل کی ،اگے چل اس خاتون کی شادی کراچی پر اردو میں کتاب “عروس البلاد کراچی”کے مصنف سید عارف شاہ گیلانی سے ہوئی۔
صاحب سنگھ چندا سنگھ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے وہ اس کالج سے پڑھ کر کالج کے پرنسپل یوئے۔جو 1917 سے 1927 تک پرنسپل رہے۔1947 تک ڈاکٹر ھوتچند مول چند پرنسپل رہے۔
تقسیم کے وقت ماڑی والا پرنسپل تھے ۔
1888کو یہاں انجینئرنگ کے کلاس شروع کیے گئے ۔کالج میں لارڈ ری میموریل لائبریری بھی ہے۔
میں کالج کے سو سالہ جشن کے موقعے پر پاکستان ڈاک نے اسی پیسے کی یادگار ٹکٹ کا 1987اجراء کیا۔