آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا خاندان چھ سال میں ارب پتی بن گیا.احمد نورانی

0
350

جنرل باجوہ کے بیوی بچوں اور دیگر رشتہ داروں  کے کاروبار ملک کی سرحدوں سے باہر؛ سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی اور وسیع جائدادوں کے بننے کے عمل کا آغاز

اس عمل میں لاہور کی ایک نوجوان لڑکی آرمی  چیف کے بیٹے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتی ہے اور اپنی رخصتی سے نو دن قبل اربوں پتی ہو جاتی ہے جبکہ اس کی باقی تین بہنوں کی مالی حالت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

نوجوان لڑکی ماہ نور صابر ، گوجرانوالہ میں واقع  زمین،   پرانی تاریخوں میں، اپنے نام کرواتی ہے اور   یوں اپنی شادی  اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی  بہو بننے سے نو دن قبل ڈی ایچ اے گوجرانوالہ میں آٹھ پلاٹوں کی ملکیت حاصل کر لیتی ہیں۔

سال دو ہزار اٹھارہ کے اسی دن یعنی دو نومبر کو، یہی خاتون، اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پہ واقع گرینڈ حیات ٹاور میں ایک اپارٹمنٹ کی مالک بھی بن جاتی ہے اور مزے کی بات یہ ہیکہ کاغذوں میں اس کا اندراج پرانی تاریخوں یعنی مالی سال دو ہزار پندرہ میں کیا جاتا ہے۔

یہ وہی وقت تھا کہ جب اسی ٹاور میں کئی اپارٹمنٹس مختلف  سیاستدانوں کے نام ہوئے ، جبکہ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی اس وقت کے  چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس ٹاور کے مشکوک پراجیکٹ کو ایک عدالتی فیصلے کی رو سے قانونی قرار دیا تھا۔ 

جنرل باجوہ  کے خاندان نے لاہور کے صابر حمید  “مٹھو”  (ماہ نور کے والد اور قمر  باجوہ کے صاحبزادے سعد باجوہ کے سسر) کے ساتھ مشترکہ کاروباری منصوبے بھی شروع کیے اور اسی سال حمید نے سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کرنا اور جائیدادیں خریدنا شروع کر دیں۔

آرمی چیف جنرل باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد بھی اربوں پتی ہو گئیں   اور گلبرگ گرین اسلام آباد میں کئی کنالوں پہ محیط فارم ہاوسز کے علاوہ ڈی ایچ اے میں کمرشل پلازے اور دیگر جائدادیں یکدم ان کے نام ہونے لگیں۔ 

جنرل باجوہ کی اہلیہ ڈی ایچ اے لاہور کے فیز فور  اور فیز سِکس  میں دو کمرشل پلازوں کی بھی اس وقت مالک  بنیں   جب  وہ  چیف  کے عہدے پر تعینات تھے۔ ان کے خاندان نے بھی 2019 میں پاکستان سے باہر اثاثے منتقل کرنا شروع کیے اور دبئی میں متعدد جائیدادیں خریدیں۔ جنرل کی اہلیہ  نے اپنے یونائیٹڈ اسٹیٹس ڈالرز

(USD)

اکاؤنٹس میں  تقریباً نصف ملین ڈالر کی خطیر رقم رکھے رکھی۔ 

گزشتہ تین سالوں کے دوران فیکٹ فوکس اپنی تمام تر کوششوں کے جاوجود چیف کے بیٹوں کے اثاثوں کی تفصیلات کی کھوج نہیں لگا سکا۔ 

ایف بی آر کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل کی اہلیہ کو اثاثے چھپانے کی پاداش میں متعدد بار  خبردار کیا گیا ، فیکٹ فوکس ان ریکارڈز کی تفصیلات فالو اپ رپورٹ میں جاری کرے گا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ  کے خاندان نے ٹیکس پاکستان کے نام سے تیل کے کاروبار کا بھی  آغاز کیا، جس کا مرکزی دفتر دبئی میں ہے، اور اگلے چند ہی دنوں میں انتہائی   برق رفتاری سے  ٹیکس

پاکستان نے پورے ملک میں کاروباری قدم جما لئے۔

قمر جاوید باجوہ جب لیفٹیننٹ جنرل بنے تو ان کی اہلیہ ٹیکس فائلر ہی نہیں تھیں۔ لاہور میں ان کا سب سے قریبی دوست صابر حمید  “مٹھو”  ایک اچھا بزنس مین تو تھا لیکن ارب پتی نہیں تھا۔ 

جوں ہی دونوں خاندان آگے بڑھے اور ان  کا تعلق دوستی سے رشتہ داری میں بدلا  تو دولت کی دیوی ان پہ اچانک مہربان ہو گئی۔

یوں چھ سال کی قلیل مدت  میں دونوں خاندان نہ صرف ارب پتی ہو گئے بلکہ  بین الاقوامی سطح پر  کاروبار شروع کیا، بیرونِ ملک متعدد  جائیدادیں خریدیں، سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنا شروع کیا،  اسلام آباد اور کراچی میں بڑے بڑے فارم ہاوسز ، لاہور میں کمرشل پلاٹوں، کمرشل پلازوں اور ایک بہت بڑے رئیل اسٹیٹ پورٹ فولیو کے مالک بھی بن گئے۔ پچھلے چھ سالوں کے دوران جنرل باجوہ کے خاندان کے ان تمام افراد کی طرف سے پاکستان اور بیرونِ ملک بنائی جانے والی جائدادوں اور قائم کئے گئے کاروباروں کی کل مالیت 12.7 ارب ہے۔

یہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کے قریبی رشتہ داروں  اور خاندان کے مختلف افراد کے  مالی معاملات کی تفصیلات انفرادی طور پر دی گئی ہے

یہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کے قریبی رشتہ داروں  اور خاندان کے مختلف افراد کے  مالی معاملات کی تفصیلات انفرادی طور پر دی گئی ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد سے شروع ہوتے ہوئے مٹھو (صابر حمید جو کہ جنرل باجوہ کے پرانے دوست اور ان کے بڑے بیٹے کے سسر ہیں) اور ان کے خاندان کے افراد قابلِ ذکر ہیں۔ جنرل باجوہ کے “اقتدار” کے چھ سالوں میں ان کے خاندان کی جائدادوں میں اضافہ ہونے کی ایک تصویر یہاں نظر آتی ہے۔

اس نمائندے نے پچھلے تین دنوں میں پاک فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار سے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی مگر انھوں نے کالز کا جواب نہیں دیا۔ صابر حمید مٹھو نے

بھی فیکٹ فوکس کی طرف سے رابطہ کرنے پر بات نہیں کی۔ اگر آرمی چیف یا صابر حمید کی طرف سے اس خبر کے حوالے سے کوئی بھی جواب دیا گیا تو اس کو من و عن شائع کیا جائے گا۔

باجوہ  کی اہلیہ، عائشہ امجد،  سے شروع ہوتی ہے اور   جناب”مٹھو” (صابر حمید،  جو کہ جنرل باجوہ کے پرانے دوست اور ان کے بڑے بیٹے کے سسر ہیں )، اور ان کے خاندان  کے دیگر افراد کے روزافزوں مالی ترقی جو کہ اربوں  پہ منتج ہوتی ہے۔

جنرل باجوہ نے مالی سال 2013 میں اپنے   ٹیکس گوشواروں  میں اپنی  اہلیہ کے نام تین جائیدادیں  ڈکلئیر کیں تھیں  جن کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں: 

1- ڈی ایچ اے لاہور کے فیز  آٹھ میں آٹھ مرلہ کا کمرشل پلاٹ (درج قیمت: 3,000,000 روپے)،

2- ڈی ایچ اے اسلام آباد میں ایک کنال کا پلاٹ (درج کردہ قیمت: 1,500,000روپے)، اور

3-

ڈی ایچ اے لاہور کے  فیز چار میں  آٹھ مرلہ کا کمرشل پلاٹ (درج شدہ قیمت: 2,500,000 روپے)۔

ان تینوں جائیدادوں کی کم از کم مارکیٹ ویلیو اور  ان اثاثوں کی تفصیالات جو  جنرل  باجوہ کی اہلیہ نے  اس کے بعد  کے  چھ سالوں کے دوران جمع کیے ہیں ، کی تفصیلات اس سیکشن کے آخر میں  ملاحظہ فرمائیں ۔ 

جنرل باجوہ نے ابتدائی طور پر یہ ٹیکس گوشوارے   اور ویلتھ سٹیٹمنٹ   30 نومبر،  2013کو جمع کرائی تھی۔ تاہم چیف آف آرمی اسٹاف مقرر ہونے کے بعد انہوں نے اسی سال سے متعلقہ ویلتھ اسٹیٹمنٹس میں تین بار: 17 ستمبر 2017، نومبر 02، 2017، اور 08 نومبر 2017 کو نظر ثانی  کی۔ 

سال 2013 کے لیے نظرثانی شدہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں، جنرل باجوہ نے ڈی ایچ اے لاہور کے فیز  آٹھ میں ایک کمرشل پلاٹ شامل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ  کہ درحقیقت انہوں نے یہ پلاٹ 2013 میں خریدا تھا لیکن ڈکلئرکرنا بھول گئے۔ مزے کی بات یہ ہیکہ یہ بھول چوک   اگلے چار سال  تک  یوں ہی جاری رہی  اور آرمی چیف بننے کے ایک سال بعد ہی 2017  میں یکدم انھیں سب کچھ یاد آگیا۔  

2016

جنرل باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد  10 اگست 2016 کو ٹیکس فائلر ہوئیں۔ ان کے شوہر کو نومبر 2016 میں ملک کا اگلا آرمی چیف مقرر کیے جانے کے لیے امیدوار تھے ۔

2016 کا سالانہ ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ ایف بی آر کے ساتھ ان کا پہلا اندراج تھا جو کہ اصل میں 28 اکتوبر 2016 کو  جنرل باجوہ کے آرمی چیف مقرر ہونے سے صرف تین ہفتے قبل جمع کرایا گیا تھا۔

اپنے 2016 کے ٹیکس گوشواروں میں  ، عائشہ امجد نے کسی وضاحت  کے   بغیر آٹھ ” دیگر اثاثے”  ڈکلئیر کئے۔ تاہم اسی سال کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ پر  17 اپریل 2018 کو نظر ثانی کی گئی جب جنرل باجوہ آرمی چیف تھے۔ ٹیکس گوشواروں میں اثاثوں کی   کا ذکر کیا گیا تھا جن کی مارکیٹ ویلیو  درج ذیل ہے۔  عائشہ  امجد  نے گزشتہ مالی سال 2015 کے دوران ان ہی اثاثوں کی  قیمت صفر

ڈکلئیر کی  تھی۔


2017 کی ویلتھ استیٹمنٹ میں  نو “دیگر اثاثے”  ڈیکلئیر کئے گئے اور  دو مندرجہ ذیل  جائیدادوں کی وضاحت دی  گئی :

  • ڈی ایچ  اے لاہور کے فیز سِکس میں ایک کمرشل پلازہ، اور

2- ڈی ایچ اے لاہور کے فیز نمبر پانچ میں  4047 مربع فٹ کا ایک زیر تعمیر فلیٹ۔

سال 2018 کے ٹیکس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ عائشہ  امجد   نے پچھلے سال کے تمام اثاثوں کی ملکیت کے ساتھ ساتھ اس سال  مزید  پانچ  کمرشل اور رہائشی جائیدادیں خریدیں اور   ایک غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ(امریکی ڈالر)  بھی ذکر   کیا۔  اس اکاونٹ میں  384,166 ڈالر کا بیلنس شو کیا جو کہ  کہ 35,691,882 پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ 

مذکورہ بالا  پانچ کمرشل اور رہائشی جائیدادوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے: 

1- اوسز فارم ہاؤس ڈی ایچ اے کراچی (پیشگی ادائیگی)

2- پی اے ایف ہاؤسنگ اسکیم کراچی میں ایک اپارٹمنٹ (پلاٹ کے طور پر ذکر کیا گیا لیکن بعد میں اسے اپارٹمنٹ کے طور پر درست کیا گیا)

3- چار مرلہ کمرشل پلاٹ # C/E/00391، DHA فیز 9 لاہور

4- چار مرلہ کمرشل پلاٹ # PC/E/00132 DHA فیز 9، لاہور

5- سکھ چین ٹاور  اسلام آباد میں اپارٹمنٹ 2730 مربع فٹ (پیشگی ادائیگی)

ڈیکلئرڈ ویلیو، ویلتھ اسٹیٹمنٹ  میں بیان کی گئی ہے۔ان اثاثوں کی  کم از کم مارکیٹ ویلیو آخر میں  ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ 

ان اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو متعلقہ سیکشن میں دیگر  تمام اثاثوں  کی ویلیو کے ہمراہ  بیان کی گئی ہے۔

اگلے سال 2019 کے ٹیکس  گوشواروں سے یہ بات سامنے آتی ہیکہ   تمام جائیدادیں اسی طرح برقرار رہیں ما سوائے ایک کے۔ اس کے علاوہ    ایک نئی جائیداد بھی ڈکلئیر  کی گئی۔ 

عائشہ  امجد نے اس سال ایک جائداد  بیچی اور اس کا سرمایہ 43,000,000 روپے تھا۔ انھوں  نے فوری طور پر تمام پاکستانی روپوں کو امریکی ڈالر میں تبدیل کیا۔ یاد رہے کہ ان دنوں پاکستانی کرنسی کی قدر تیزی سے گر رہی تھی۔

یہ رقم غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ میں    656,030   امریکی ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ  پاکستانی  66,083,330 روپوں کے برابر تھی۔ 

دوسرے بینک اکاونٹس  میں نقد  رقم  اور پرائز بانڈز لاکھوں میں تھے اور انہیں  گوشواروں سے تصدیق کیا جا سکتا ہے۔

 اس سال  مندرجہ ذیل جائیدادیں خریدیں / شناخت کی گئیں:
  •  ڈی ایچ اے لاہور کے فیز چار میں کمرشل پلازہ ،
  •  ڈی ایچ اے لاہور کے فیز چھ میں ایک “کوئی دیگر اثاثہ” کے اندراج کی نشاندہی  آٹھ مرلہ کمرشل پلازہ کے طور پر کی گئی،
  •   
  • ڈی ایچ اے لاہور میں پانچ سو گز کا پلاٹ جس کی مزید کوئی تفصیل نہیں بیان کی گئی۔
  • 2020
  • اس سال عائشہ  امجد کی  پچھلی تمام جائیدادیں اسی طرح  برقرار رہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ  گلبرگ گرینز اسلام آباد میں دو بڑے فارم ہاؤس خریدے گئے۔
  • فارن کرنسی اکاونٹ میں بیلنس 478,157.8 ڈالر یعنی کہ 38,990,330  پاکستابی روپے ہو گیا۔ 
  • گلبرگ گرینز اسلام آباد کے سیکٹر بی میں دونوں نئے فارم ہاؤس دس دس کنال کے تھے۔ عائشہ نے ڈکلئیر کیا کہ اس نے ایک فارم ہاؤس 50,000,000 روپے میں خریدا ہے (اور دو 100,000,000 روپے میں)۔ تاہم، گلبرگ گرینز کے سیکٹر بی میں ایک دس کنال فارم ہاؤس کی کم از کم قیمت 150,000,000 روپے تھی۔ لہذا، دو فارم ہاؤسز کی کم از کم قیمت 300,000,000 روپے ہوگی۔ ان فارم ہاؤسز میں سے ایک گلی 9A اور گلی 8 کے سنگم پر ایک کارنر پلاٹ تھا۔ یہ  دونوں فارم ہاؤس ملحقہ ہیں اور  گلبرگ  گرینز   کی اہم ترین جگہ پر   20 کنال پر مشتمل  یہ خاصی  قیمتی  پراپرٹی ہے۔  یہ بیان واضح طور  ایک بہت بری  غلط بیانی کے زمرے میں آتا ہے۔
  • 2021
  • اس سال بھی تمام جائدادیں  اسی طرح  برقرار  رہیں۔عائشہ امجد  کے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ کا بیلنس  591,831  امریکی ڈالر جو کہ پاکستانی 59,846,330  روپوں کے برابر تھا۔ 
  • عائشہ امجد  کی  اپنے شوہر کے آرمی چیف کے طور پر چھ سالہ دورانیے میں حاصل کردہ  اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو مندرجہ ذیل ہے: 
  • 1- 150 ملین روپے – 10 کنال فارم ہاؤس، پلاٹ 70، گلی B-9A، گلبرگ گرینز، اسلام آباد
  • 2- 150 ملین روپے – 10 کنال فارم ہاؤس، پلاٹ 71، گلی B-9A، گلبرگ گرینز، اسلام آباد
  • 3- 187 ملین روپے – اویسس فارم ہاؤس ڈی ایچ اے کراچی (پیشگی ادائیگی)
  • 4- 650 ملین روپے – کمرشل پلازہ  ڈی ایچ  اے لاہور فیز  چار  
  • 5- 389 ملین روپے – 8 مرلہ کمرشل پلازہ  ڈی ایچ اے  لاہور فیز  پانچ 
  • 6- 70 ملین روپے – 4 مرلہ کمرشل پلاٹ # C/E/00391، DHA فیز نو لاہور
  • 7) – 70 ملین روپے – 4 مرلہ کمرشل پلاٹ # PC/E/00132 DHA فیز 9، لاہور
  • (8  88  ملین روپے – سکھ چین اسلام آباد میں اپارٹمنٹ 2730 مربع فٹ
  • (9-  125 ملین روپے – DHA لاہور کے فیز V میں 4047 مربع فٹ فلیٹ
  • (10   95  ملین روپے – فیز II ایکسٹینشن DHA اسلام آباد میں 500 گز کا پلاٹ
  • (11-90 ملین روپے – پی اے ایف ہاؤسنگ اسکیم کراچی میں ایک اپارٹمنٹ
  • اور 160 ملین سے زیادہ کیش، بانڈز، زیورات، بینک اکاونٹس میں رقم اور غیر ملکی کرنسی شامل ہیں۔ 
  • ان کی کل مالیت 2,224 ملین روپے ہے  (اس میں رہائشی اور کمرشل پلاٹ اور راولپنڈی میں ایک بڑی نجی رہائش شامل نہیں ہے جو جنرل باجوہ کو بطور آرمی جنرل اور سی او اے ایس کی حیثیت سے دی گئیں۔)
  • 2016 میں صفر سے،  2.2 بلین روپے (ڈیکلئرڈ  اور معلوم)  تک کا یہ سفر  صرف چھ سالوں  کے مختصر عرصہ پہ محیط ہے ۔ یاد رہے اس میں رہائشی پلاٹ، کمرشل پلاٹ اور فوج کی طرف سے
  • ایک نوجوان پاکستانی لڑکی  کی ارب پتی ہونے کی  لازوال داستان:
  • اکتوبر 2018 کے آخری ہفتے میں ایک نوجوان لڑکی کے ڈکلئیرڈ اثاثوں کی کل مالیت صفر تھی، لیکن 02 نومبر 2018 کو  اس کی  کی شادی سے صرف ایک ہفتہ قبل  یہی خاتون ایک ارب (1271 ملین روپے) سے زیادہ اثاثوں کی مالک بن  گئی۔
  • اپنے شوہر کو دیئے گئے مکانات وغیرہ شامل نہیں ہیں۔
  • اگرچہ اس لڑکی، ماہ نور صابر نے 2018 میں ایف بی آر کو ان جائیدادوں سے آگاہ کر دیا تھا، لیکن فائلنگ میں ان جائیدادوں کی خریداری کو  ٹیکس سال 2014، 2015 اور 2016 میں حاصل کی گئی تھیں۔ ان کو اسطرح  ڈکلئیر کرنا یہ ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ ہر ایک جائیداد درحقیقت نومبر 2016 سے پہلے خریدی گئی تھی۔ نومبر 2016 سے پہلے کیوں؟ یہ اس وقت واضح نہیں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہوتا گیا۔ یہ سالانہ ٹیکس گوشوارے ، مالی سال 2017 کے ڈیکلریشنز کے ساتھ، 14 ستمبر 2018 اور 23 اکتوبر 2018 کو جمع کیے گئے تھے۔ بعد ازاں، سال 2018 کے ڈیکلریشن بھی 17 دسمبر 2018 کو جمع کرائے گئے۔
  • ماہ نور کی جائیدادوں میں موضع جلکے لاہور میں 212 کنال اور 12 مرلہ زرعی اراضی، فیروز پور روڈ کے ساتھ (موجودہ مارکیٹ ویلیو 340 ملین روپے)، ڈی ایچ اے لاہور (موجودہ مارکیٹ) کے فیز 7 سیکٹر سی میں چار آٹھ مرلہ اور تین چار مرلہ کمرشل پلاٹ شامل ہیں۔ قیمت: 490 ملین روپے)، ایک گرینڈ حیات اسلام آباد اپارٹمنٹ (موجودہ مارکیٹ ویلیو: 70 ملین روپے)، ڈی ایچ اے گوجرانوالہ میں ایک کنال کے آٹھ پلاٹوں کی مختص رقم (موجودہ مارکیٹ ویلیو: 72 ملین روپے) اور 2014 میں شامل کمپنی میں 15,000شیئرز ، لا ریزیڈنس (پرائیویٹ) لمیٹڈ، جس کی قیمت 1.5 ملین روپے ہے، شامل ہیں۔
  • اہ نور نومبر 2019 میں ایک آئل کمپنی، ٹیکس پیٹرولیم پاکستان کی ‘مینیجر’ بھی بن گئیں۔ Taxx پیٹرولیم، جو اس وقت پاکستان میں ایک بیرون ملک کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے جس کا ہیڈ آفس دبئی میں ہے، حقیقت میں پہلی بار پاکستان میں 14 نومبر کو رجسٹر ہوئی تھا۔ 2018 اور بعد میں 16 جنوری 2019 کو متحدہ عرب امارات میں رجسٹر ہوئی۔ پاکستان سے لیے گئے  کمپنی کے ان کارپوریشن دستاویزات میں ماہ نور کے والد صابر حمید  “مٹھو” اور ان کے بھائی ناصر حمید کو بطور ڈائریکٹر ظاہر کیا  گیا ۔ تاہم، ٹیکس پیٹرولیم، جس نے اپنے قیام کے چند ہی دنوں میں پورے پاکستان میں اپنا کام شروع کر دیا، اسے ماہ نور اور اس کے شوہر، جنرل باجوہ کے بڑے بیٹے، دبئی میں اپنے اعلان کردہ ہیڈ آفس سے چلا رہے ہیں۔ ماہ نور کا لنکڈ ان پروفائل ان کو  ٹیکس پیٹرولیم میں ایک سینئر منیجر بتاتا  ہے۔
  •  حمید برادران کی ایف آئی اے سے حاصل کی گئی  ٹریول ہسٹری کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ صابر مٹھو اور ناصر شاذ و نادر ہی  یو اے ای جاتے تھے جب کہ جنرل باجوہ کے بیٹے سعد اور ان کی اہلیہ ماہ نور دبئی میں ہی  رہتے تھے اور شاذ و نادر ہی پاکستان آتے تھے۔
  • ڈی ایچ اے گوجرانوالہ پلاٹ – ایک کرپٹ پریکٹس:
  • بیوروکریٹک حلقوں میں غریب کسانوں سے ان علاقوں میں کم قیمتوں پر زمینیں خریدنا  جہاں حکومت مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہوتی  ہے ایک عام طریقہِ واردات ہے۔
  •  ماہ نور اس وقت نوعمر  یعنی لڑکپن میں ہی تھی جب زمین اس کے نام  ظاہر کی جارہی تھی۔ اگر یہ زمین اس کے والد (صابر حمید عرف “مٹھو”) کے نام ہوتی، تو پلاٹ بالآخر  اس کے کے تمام بہن بھائیوں میں تقسیم ہو چکی ہوتے۔ جبکہ ایسا نہیں ہوا۔ ماہ نور کے سعد باجوہ کی اہلیہ کے طور پر آرمی ہاؤس میں رخصتی  سے نو دن پہلے ہی پلاٹوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ اگر اٹھارہ انیس سال کی عمر میں ماہ نور صابر کے نام اتنی بڑی جائیداد لگ رہی تھی تو ایسا اسی صورت میں ممکن تھا کہ گوجرانوالہ ڈی ایچ اے کے پلاٹ ماہ نور کے والد یا والدہ کے ہوتے اور انکے نام سے ماہ نور کو منتقل ہوتے تو یہ کوئی معاملہ ہی نہ تھا۔ فیکٹ فوکس نے تمام ریکارڈز چیک کئے مگر یہ زمین یا ان پلاٹوں کی ایلوکیشن کبھی بھی ماہ نور کے والدین کے نام نہیں رہے۔ پاک فوج کی کوئی انکوائری کمیٹی ہی حقائق کا باریک بینی جائزہ لے سکتی ہے۔
  • ماہ نور کی بہنیں:
  • ماہ نور کی بہن حمنہ صابر 09 جنوری 2016 کو 18 سال کی ہو ئیں۔ حمنہ کا سال 2017کے لیے (08 مئی 2018 کو) جمع کرایا  گیا پہلا ٹیکس ریٹرن ظاہر کرتا ہے کہ اس کے نام کسی قسم کے کوئی غیر منقولہ اثاثے نہیں تھے۔ اس کے پاس صرف ایک بینک اکاؤنٹ اور کچھ نقدی تھی۔ حمنہ کی بہن ماہ نور، جو اس سے محض   دو سال  پانچ ماہ  بڑی تھی، 2017 تک ارب پتی بن چکی تھی۔ دونوں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ دونوں کے والدین ایک ہی  ہیں۔ ماہ نور نے اچانک ڈی ایچ اے میں درجنوں پلاٹ اور زمینیں کیسے حاصل کیں، یہ 2018 کے آخر تک ایک حل طلب معمہ تھا۔
  • 17 دسمبر 2018 کو، حمنہ نے 2018 کے لیے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے اور فیز 7 کے سیکٹر Z میں صرف ایک رہائشی پلاٹ، DHA لاہور کے فیز 7 کے سیکٹر C میں ایک کمرشل پلاٹ، اور موضع جھلکے لاہور میں 115 کنال اراضی ڈکلئیر کئے ۔ اس سال میں، اس نے لا ریزیڈنس (پرائیویٹ) لمیٹڈ میں 15,000 شیئرز بھی ڈکلئیر  کئے اور اس کی چیف ایگزیکٹو بن گئیں۔ اس کا بینک بیلنس 3,368,625 روپے تھا جبکہ اس کے پاس 247,125 روپے نقد تھے۔ ایک ہی والدین کی بیٹیاں ہونے کے باوجود حمنہ کے پاس 2019، 2020 اور 2021 میں بھی وہی اثاثے رہے جب کہ اس کی بڑی بہن ماہ نور نہ صرف ارب پتی بن گئی بلکہ اس کے کاروبار پورے پاکستان میں پھیل گئے اور اس نے متحدہ عرب امارات میں  رہائش کے ساتھ ساتھ   کاروبار چلانا بھی شروع کر دیا۔ 
  • چار بہنوں میں سے تیسری بہن، 19 سالہ عقبہ صابر ، کا  پہلا ٹیکس ریٹرن 22 اکتوبر 2018 کو جمع کرایا گیا جب وہ 15 سال کی تھیں، اور یہ ٹیکس ریٹرن سال2017 کے لیے  تھا جب اس کی عمر 14 سال تھی۔  اس سال  اس کے  اپنے ریٹرن میں کوئی اثاثہ  ڈکلئیر نہیں کیا گیا  تھا لیکن  اسے تین جائیدادیں بطور تحفہ ملی تھیں۔ ان جائیدادوں میں ایک چار مرلہ پلاٹ اور ایک آٹھ مرلہ پلاٹ  دونوں سیکٹر C میں، ایک آٹھ مرلہ پلاٹ  سیکٹر A میں – یہ  تمام کمرشل پلاٹ ڈی ایچ اے لاہور کے فیز سات میں واقع ہیں۔ 
  • سال 2018 کے  ٹیکس گوشواروں میں، یہ ظاہر  کیا گیا کہ گزشتہ سال  ظاہر کردہ تین کمرشل پراپرٹیز کو برقرار رکھتے ہوئے، اس نے ایل ڈی اے سٹی (A934 سے A941) لاہور میں ایک کنال کے آٹھ نئے پلاٹ بھی خریدے ہیں ، اور DHA میں ایک پلاٹ جو کہ دو کنال پر محیط ہے اس کا ایڈریس صرف 84-W, DHA    ہی تحریر کیا گیا۔
  •  اس سال، اس نے ایل اے ریزیڈنس پرائیویٹ لمیٹڈ میں 14990 شیئرز (قیمت: 1,499,000 روپے) بھی ڈکلئیر کئے۔ 
  • 2019 میں، جب وہ 16 سال کی تھیں، ان کے ٹیکس گوشواروں میں یہ ڈیکلئیر  کیا گیا تھا کہ انھوں نے DHA فیز 7 کے سیکٹر C میں اپنا آٹھ مرلہ کمرشل پلاٹ 40 ملین روپے میں فروخت کیا تھا۔ جو کہ  انھوں نے  چند ماہ قبل ہی  5.6 ملین روپے میں خریدا تھا اور اس طرح اس مدت میں 30.4 ملین روپے کا منافع کمایا۔ یہ بھی ڈکلئیر   کیا گیا کہ انھوں نے پلاٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی یہ 40 ملین روپے  کی رقم اپنی والدہ کو تحفے میں دی ہے۔ اس پلاٹ کو فروخت کرنے اور فروخت کی رقم تحفے میں دینے سے ان کے اثاثوں میں کمی واقع ہوئی۔ اس کے بعد، ان کے اثاثے 2020 اور 2021 کے ٹیکس گوشواروں میں اسی طرح برقرار رہے۔
  • ایک نابالغ بچی کی داستان: 
  • ماہ نور کی تین بہنوں میں سب سے چھوٹی 12 سالہ نابالغ بچی کے ٹیکس گوشوارے (اس کی نابالغ ہونے کی وجہ سے نام نہیں چھاپا گیا) پہلی بار 22 اکتوبر 2018 کو جمع کرایا گئے، جب اس کی عمر  صرف آٹھ سال تھی۔ یہ ٹیکس گوشوارے سال 2017 کے تھے جب اس کی عمر سات  سال تھی۔  2017 کے ٹیکس گوشواروں سے پتہ چلتا ہے کہ اسے پانچ جائیدادیں بطور تحفہ ملی ہیں۔ ان جائیدادوں میں ایک چار مرلہ پلاٹ اور ایک آٹھ مرلہ پلاٹ   دونوں سیکٹر C میں، اور ایک آٹھ مرلہ پلاٹ سیکٹر A میں واقع ہے – تمام کمرشل پلاٹ ڈی ایچ اے لاہور کے فیز 7۔ میں واقع ہیں ۔ 
  • دیگر دو جائیدادیں رہائشی پلاٹ تھیں جن میں سے ہر ایک، دو کنال (82-W, 83-W, DHA لاہور)  کا پلاٹ تھا۔
  • ٹیکس سال 2018 کے لیے، ان پانچوں جائیدادوں کو برقرار رکھتے ہوئے، اس نابالغ بچی کے ٹیکس گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے لا ریزیڈنس پرائیویٹ لمیٹڈ میں Pvt Ltd میں 14990 شیئرز بھی (قیمت: 1,499,000 روپے) بطور تحفہ موصول ہوئے۔
  • سعدیہ صابر: 
  • ان چاروں  بیٹیوں کی والدہ اور صابر حمید “مٹھو” کی اہلیہ سعدیہ صابر کی 2013 میں ڈکلئیرڈ  دولت صفر تھی۔ اپنی بیٹیوں کی طرح، انھوں نے بھی  اکتوبر 2018 کے اہم مہینے میں سال 2015، 2016 اور 2017 کے  ٹیکس گوشواروں پر نظر ثانی کی۔ 2015میں اس کے ظاہر کردہ اثاثوں میں ڈی ایچ اے لاہور میں دو پلاٹ اور تین بینک اکاؤنٹس اور نقد رقم شامل ہے۔ اپنی چھوٹی  نابالغ بیٹیوں کے نام ڈی ایچ اے لاہور کے آٹھ پلاٹ بھی دکھائے۔ 2017 میں ان  کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سعدیہ صابر  کے پاس لاہور میں چار پلاٹس کے ساتھ ساتھ تین بینک اکاؤنٹس اور کچھ نقدی بھی تھی۔ ایف بی آر کی دستاویزات میں ان کی ایک بیٹی کے نام دو پلاٹ دکھائے گئے ہیں۔ ٹیکس سال 2017 کے لیے اس کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں تین بار نظر ثانی کی گئی اور حتمی ویلتھ اسٹیٹمنٹ اکتوبر 2018 میں جمع کرائی گئی۔ 
  • سعدیہ صابر کی 2019، 2020 اور 2021 میں پاکستان میں وہی جائیدادیں برقرار رہیں جبکہ ان کے بینک اکاونٹس میں رقم مسلسل بڑھتی رہی۔  
  • صابر حمید عرف مٹھو:
  • (ان چار لڑکیوں کے والد اور سعدیہ صابر کے شوہر)
  • 2013
  • ایف بی آر کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ 2014 میں صابر حمید کے ظاہر کردہ اثاثوں میں لاہور کے مختلف علاقوں میں اٹھارہ جائیدادیں، 16 ملین روپے کا کاروباری سرمایہ، ایک مرسڈیز بینز اور 152 ملین روپے نقد شامل تھے۔ اس نے سات جائیدادیں “کسی دوسرے اثاثے” کے طور پر اور نو جائیدادیں “دوسروں کے ناموں میں اثاثے” کے طور پر بھی ظاہر کیں۔
  • خاندانی روایت کے مطابق، صابر نے 2016 میں 2014 کے لیے اپنی ویلتح ٓسٹیٹمنٹس  پر بھی نظر ثانی کی۔
  • ٹیکس سال 2015 میں ان کی جائیدادیں وہی رہیں۔ ان  کا کاروباری سرمایہ بڑھ کر 22ملین روپے تک پہنچ گیا، “کسی دوسرے اثاثے”  (اثاثوں کی تفصیلات فراہم کیے بغیر اعلان کردہ اثاثوں)  کے ظور پر ڈکلئیرڈ  اثاثوں کی تعداد کم ہو کر چار رہ گئی۔
  • 2018
  • 2018 میں صابر کی بیٹی نے جنرل باجوہ کے بڑے بیٹے سے شادی کی اور اسی سال انہوں نے بیرون ملک جائیدادیں منتقل کرنا شروع کر دیں۔ صابر  حمید نے اپنے نام پر 21 جائیدادیں ڈکلئیر کیں ، جس میں 31 ملین روپے کا کاروباری سرمایہ، 78 ملین روپے نقد، 985 ملین روپے کی “M/s Dawn Property” میں شٗیرز، 136.8 ملین روپے کا لا ریزیڈنس پرائیویٹ لمیٹڈ لون، بیسٹ وینچر لمیٹیڈ میں کچھ شیئرز ، اور ایچ ڈی انویسٹمنٹ میں 764 ملین روپے کی سرمایہ کاری شامل تھی۔
  • صابر حمید  کی   312 ملین روپے کی غیر ملکی جائیدادیں، 510 ملین روپے کا کاروباری سرمایہ اور دو بینک اکاؤنٹس برقرار رہے۔  
  • سال 2016 کے لیے، ٹیکس ریکارڈ بتاتے ہیں کہ اس کی کل جائیدادوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہو گئی، کاروباری سرمایہ بڑھ کر 27 ملین ہو گیا، اور “کسی دوسرے اثاثوں ” کی تعداد بڑھ کر سات ہو گئی۔
  • سال 2017 میں ان کے نام پر جائیدادوں کی تعداد بائیس ہو گئی اور کاروباری سرمایہ بڑھ کر 28 ملین روپے ہو گیا۔
  • 2019
  • سال 2019 میں صابر حمید کے نام پر 20 جائیدادیں تھیں جن میں 129 ملین روپے کا کاروباری سرمایہ، 764 ملین روپے کی سرمایہ کاری، 273.2 ملین روپے کیش اور 210ملین روپے کے شیئرز شامل تھے۔
  • غیر ملکی جائیدادیں ،سال  2019:
  • پاکستان سے باہر رکھے گئے کل اثاثے 1,031,310,465 روپے
  • سال 2020 میں صابر نے 20 جائیدادوں کا اعلان کیا۔ اس کا کاروباری سرمایہ 141ملین روپے، 764 ملین روپے کی سرمایہ کاری اور 217 ملین روپے کے شیئرز ہیں۔
  • غیر ملکی جائیدادیں، سال 2020:
  • پاکستان سے باہر رکھے گئے اثاثوں کی مالیت 312,375,000 روپے ہے۔
  • 2021 میں صابر حمید  نے 26 جائیدادوں کا اعلان کیا۔ یہ لاہور کے مہنگے ترین علاقوں میں زرعی، تجارتی اور رہائشی جائیدادیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ای ایم ای ہاؤسنگ سوسائٹی کے سامنے والی زمین، لاہور کینٹ کے موضع تھیٹر میں 55 کنال اراضی، ڈیرہ چہل میں 10 کنال اراضی، اور ڈی ایچ اے لاہور میں مکان 72K میں آدھا حصہ ہے۔ ان جائیدادوں کے علاوہ ان کے پاس 141 ملین روپے کا کاروباری سرمایہ تھا جس میں ڈان موٹرز، راشد فلنگ اسٹیشن، کیپٹل ڈان کمیونیکیشن، 764 ملین روپے کی سرمایہ کاری، دو مرسڈیز بینز اور ایک لیکسس، 380.3 ملین روپے کی نقد رقم، اور وراثت شامل تھی۔
  • غیر ملکی جائیدادیں، سال 2021:
  • پاکستان سے باہر رکھے گئے اثاثوں کی مالیت 1,033,970,266 روپے ہے۔ ان میں 
  • 80.23 مربع، پراپرٹی نمبر 3106، پلاٹ نمبر 156 ایم ٹی آر، – بلڈنگ نمبر 2، دبئی مال ریزیڈنسز، دبئی اور 135.45 SQ، پراپرٹی نمبر 2302، پلاٹ نمبر 156، MTR، – بلڈنگ نمبر 2، دی دبئی، مال ریذیڈنسز، دبئی شامل ہیں۔ 
  • ناصر حمید:
  • ناصر حمید صابر حمید  “مٹھو”  کے بھائی ہیں اور اب لاہور میں ایک بااثر اور امیر شخص ہیں۔
  • ناصر حمید  کے 2014 کے گوشوارے مارچ 2016 میں جمع کیے گئے تھے۔ اس ٹیکس سال کے لیے ویلتھ اسٹیٹمنٹ اصل میں مارچ 2016 میں جمع کرائی گئی تھی- تاہم، جنرل  باجوہ  کے توسیع شدہ خاندان کی روایت کو جاری رکھتے ہوئے، اس سال کے لیے ایک نظرثانی شدہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ دسمبر 2019 میں جمع کرائی گئی۔ اس ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ڈی ایچ اے، راوی ٹاؤن اور گلبرگ ٹاؤن میں سات زرعی اور گیارہ رہائشی اور کمرشل جائیدادیں ظاہر کی گئیں۔ ان کے پاس 12 ملین روپے کا کاروباری سرمایہ اور 11ملین روپے کے اثاثے اپنی شریک حیات اور بیٹی کے نام  بھی تھے۔
  • میں صابر حمید کا ٹیکس 10 لاکھ سے کم تھا۔ آنے والے سالوں میں، وہ  لاہور کا ایک ارب پتی  طاقتور پراپرٹی بزنس ٹائیکون بن گیا ، اور بیرون ملک اثاثے منتقل کرنے لگا۔
  • ناصر  حمید کی 2016 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ اصل میں فروری 2017 میں جمع کرائی گئی تھی لیکن دسمبر 2019 میں اس پر نظر ثانی کی گئی۔ اثاثوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
  • ناصر  حمید کی 2017 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ  اصل میں دسمبر 2017 میں جمع کرائی گئی تھی  لیکن بعد میں دسمبر 2019 میں نظر ثانی کی گئی اور تقریباً وہی اثاثے برقرار رہے۔
  • 2018 کی  ویلتھ اسٹیٹمنٹ بھی ایسی ہی ایک مثال  ہے۔ یہ  ویلتھ اسٹیٹمنٹ اصل میں نومبر 2018 میں جمع کرائی گئی  تھی  لیکن بعد میں دسمبر 2019 میں اس پر نظر ثانی کی گئی۔ اس سال کے دوران بھی  ناصر  حمید کے وہی اثاثے  برقرار رہے اور صرف پرائز بانڈ   کی کچھ رقم  اضافہ ہوا تھا۔
  • ناصر کی 2019 کے ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ڈی ایچ اے اور گلبرگ سمیت لاہور کے مختلف علاقوں میں آٹھ زرعی جائیدادیں اور دس کمرشل اور رہائشی جائیدادیں درج  ہیں۔
  • 2020 کے ٹیکس ریکارڈز زرعی املاک میں اضافہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ناصر نے لاہور کے مختلف علاقوں میں دس زرعی جائیدادوں، دس کمرشل اور رہائشی جائیدادیں اور 12.8ملین روپے کے کاروباری سرمایا ظاہر کیا۔
  • ناصر کے 2021 کے ویلتھ سٹیٹمنٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے پاس تقریباً 3 ارب روپے مالیت کی متعدد جائیدادیں ہیں اور اس کے علاوہ وہ لاہور کے مختلف علاقوں میں  کئی نامعلوم مکانات کے  بھی مالک ہیں۔
  •  
  •  

  

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں