مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعظم تنویر الیاس نے بلدیاتی انتخابات کےلئے سکیورٹی فراہم کرنے کے دعوؤں سے دستبردار ہو گئے، جو حسب سابق تحریک انصاف کا وطیرہ رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پاکستان میں اپنی وفاقی حکومت سے سکیورٹی کی فراہمی کےلئے کردار ادا کرنے کی بجائے انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور انتخابات رکوانے میں ممکنہ کامیابی پر طنزیہ مکتوب لکھنے میں مصروف ہیں۔
الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر حکومت کو ہی اپنی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کےلئے انتظامات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ تاہم پولنگ اسٹیشن پر لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنا اور امن و امان کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، لہٰذا حکومت اپنی ذمہ داریوں سے مبرا نہیں ہو سکتی۔
الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا کہ حکومت سکیورٹی فورسز کی فراہمی یقینی بنائے اور 24نومبر کو فورسز مہیا کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرے۔
یوں انتخابات والا تماشہ 24 یا 25 نومبر تک کھینچ لیا گیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نہ ملنے کی صورت اب اگر الیکشن ملتوی بھی کئے گئے تو 25 یا 26 کو اس بابت اعلان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ خط و کتابت اور بیان بازی محض اس لئے کی جا رہی ہے کیونکہ کوئی بھی توہین عدالت کا بار اٹھانے کا متحمل نہیں ہونا چاہتا۔ سارے اس کمبل سے جان چھڑوا کر دوسرے کے سر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم ساتھ ہی الیکشن ملتوی کروانے کے بھی خواہش مند ہیں۔
اس ساری کھینچا تانی میں دس ہزار سے زائد امیدواران، انتخابی عملہ، سیاسی کارکنان کے نا صرف کئی ماہ ضائع کروائے گئے ہیں، بلکہ بھاری مالی اخراجات بھی کروائے گئے ہیں، ساتھ ہی حکومتی خزانے سے بھی بھاری اخراجات کر کے عوامی ٹیکسوں کو برباد کرنے کا عمل جاری ہے۔
انتخابات ملتوی ہونے کی صورت میں نہ صرف الیکشن کمیشن اور عدلیہ بلکہ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی آڑے ہاتھوں لینے، ان کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی مزاحمت ہی واحد راستہ ہے، جس کی بنیاد پر اس جعل سازی، دھوکہ دہی اور کھلے فراڈ کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔