بلوچ نیشنل موومنٹ کے ادارہ برائے انسانی حقوق پانک کی طرف سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2022 میں بلوچستان میں پاکستانی فورسز نے 629 کو جبری لاپتہ ، 195 کو ماورائے عدالت قتل اور 187 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
پانک کے مطابق گذشتہ سال پاکستانی فوج کے ٹارچر سیلز سے 187 جبری لاپتہ افراد بازیاب ہوئے۔
رپورٹ میں انفوگراف کی مدد سے پورے سال کے دورانیہ میں انسانی حقوق کی صورتحال کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس کے مطابق پاکستانی فوج نے سال 2022 کے مہینے جنوری میں 92 جبری لاپتہ ، 15 قتل اور ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا، فروری میں 95 جبری لاپتہ ، 42 قتل اور 5 افراد پر تشدد کیا گیا، مارچ میں 62 جبری لاپتہ، 19 قتل اور 6 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اپریل میں 50 جبری لاپتہ ، 39 قتل اور 18 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا،مئی میں 61 جبری لاپتہ ، 5 قتل اور 22 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا،جون میں 26 جبری لاپتہ اور 11 افراد قتل کیے گئے،جولائی میں 46 جبری لاپتہ ، 16 قتل اور 28 افراد تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔اگست میں 55 جبری لاپتہ،5 قتل اور 37 تشدد کا نشانہ بنائے گئے، ستمبر میں 30 جبری لاپتہ، 02 قتل اور 19 افراد تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔اکتوبر کو 38 افراد جبری لاپتہ،15 قتل اور 18 افراد تشدد کا نشانہ بنائے گئے،نومبر کو 36 جبری لاپتہ ، 23 قتل اور 14 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔دسمبر 2022 کو 38 جبری لاپتہ، 2 قتل اور 19 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2022بلوچستان میں انسانی المیہ، اجتماعی سزاء ،جبری گمشدگی ،قتل ،فوج کشی اور تشدد سے بھرپور سال رہا۔پاکستانی آرمی ،ایف سی ،آرمی کی ماتحت سی ٹی ڈی نے بلوچستان میں مختلف علاقوں اورسندھ میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں بلوچوں کو جبری گمشدگی ، اجتماعی سزاء،جعلی مقابلوں میں قتل اور فورسز کی کارروائیوں میں تشددکا نشانہ بنایا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ قوم دوست پارٹیوں پر مکمل قدغن عائد کیاجاچکا ہےصرف پاکستانی فوج اور فوجی قبضہ کے حامی گروپوں کوسیاسی آزادی حاصل ہے۔قوم دوست پارٹیوں پر پابندیوں کی وجہ سے بلوچستا ن میں ایک خلا پیدا ہوچکا ہے جس کو پاکستانی فوج اپنے حامیوں سے بھرنے کی کوشش کرتی ہے۔
پانک کے مطابق اس وقت بلوچستان میں فوجی قوت کے مقابلے کے لیے فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین سیاسی تنہائی کا شکار ہیں کئی سالوں میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں حکومت اور لواحقین کے درمیان متعدد بار مذاکرات ہوئے لیکن پاکستان کی بے اختیار حکومت اپنے وعدوں پر عملدرآمد اور قانون کے نفاذ میں ناکام ثابت ہوئی۔یہاں تک کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’میں جبری لاپتہ افراد کے بارے میں طاقتور حلقوں سے بات کرؤں گا۔‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے پاس اختیار نہیں بلکہ اختیارات کی مرکز پاکستانی فوج ہے۔جس کی وجہ سے حکومت اور لواحقین کے درمیان یہ مذاکرات بے نتیجہ نکلے اور بلوچستان میں انسانی بحران مزید گہرا ہوتا گیا