بلوچ خواتین کو تشدد اور جبری گمشدگی کا ہدف بنانے کی ریاستی پالیسی کے مقاصد و محرکات؟ – رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

0
369

گوکہ جب بھی بلوچ قوم نے پاکستانی نوآبادیاتی قبضہ اور غلامی سے نجات کیلئے تحریک آزادی میں تیزی لائی ہے تو پاکستان کی سفاک فوج اور خفیہ ادارے تحریک کو کچلنے، کمزور اور غیر موثر کرنے کیلئے انسانیت، انسانی وقار و شرف، جمہوری اقدار و قوانین سمیت عالمی جنگی قوانین کو بھی روند ڈالا ہے کوئٹہ میں پاکستانی فوج کے کور کمانڈرجنرل آصف غفور نے ایک بارمقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جبر و استبدادیت اور انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے ان کی اس بات سے باآسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے عالمی جنگی قوانین سے کس قدر لاعلم ہیں ان کی فکری تربیت اور موٹیویشن کیلئے کس درجہ کی فسطائی ذہنیت اور رویئے فروغ دی گئی ہیں۔

رواں صدی کے ابتدائی دنوں سے ہی پاکستانی فوج مقبوضہ بلوچستان میں جنگی قوانین کو روند کر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنارہی ہے 21 ویں صدی کی پہلی دہائی کے نصف میں کوہلو سیپاکستانی فوج کے ہاتھوں ایک خاتون اسکول ٹیچر محترمہ ذرینہ مری کی جبری گمشدگی کی خبر ذرائع ابلاغ، سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے جلسوں اورسیمیناروں میں زیربحث رہی اور ایسے تقاریب کے موقعے پر پیش کی گئی قراردادوں میں محترمہ ذرینہ مری کو منظرعام پر لانے اور رہا کرنے کا مطالبہ ہمیشہ نمایاں طور پر شامل رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ محترمہ زرینہ مری کوہلو اور کاہان سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والی واحد خاتون نہیں تھی بلکہ 2004 اور 2010 کے درمیانی عرصہ میں پاکستانی فوج نے مری علاقہ سے کم و بیش ڈھائی سو سے زیادہ خواتین اور بچوں کو اغوا کرکے جبری لاپتہ کیا تھا جن میں سے زرینہ مری سمیت بھاری اکثریت کا آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ فوج اور انٹیلیجنس کے کس عقوبت خانے میں ہیں اور کس حال میں ہیں مگرماسوائے زرینہ مری کے کبھی کسی جلسہ، سیمینار اوراحتجاجی مظاہرے کی قرادادوں یاکسی ٹی وی ٹاک شو میں ان کا ذکر نہ آیا۔اس کے کئی وجوہات ہیں۔میڈیا پر بدترین ریاستی پابندیاں اس خاموشی کا ایک اہم سبب ہے دوسراسبب میڈیا کی جابنداری ہے ایک سبب ان علاقوں کا دور دراز دشوار گزار ہونا ہے جن علاقوں سے ان خواتین اور بچوں کو فوج نے جبری لاپتہ کیا۔متاثرہ خاندانوں کا میڈیا تک عدم رسائی، عدلیہ و دیگر نوآبادیاتی ریاستی اداروں پر عدم اعتماد اور مقامی روایات بھی اس حساس انسانی مسئلے کی دب جانے کے اہم ا سباب ہیں۔

اسی طرح 2015 سے اب تک مشکے، راغے، رخشان، گچک، کیلکور، بالگتر، کولواہ، آواران، جھاؤ، گریشہ اور سولیر جیسے دور دراز پہاڑی اور دیہی علاقوں میں بلوچ خواتین اور بچوں کو سفاک پاکستانی فوج فضائی بمباری میں ماورائے عدالت قتل اور زمینی فوجی کاروائیوں میں جبری گمشدگی کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ بعض اوقات آزادی خواہ بلوچ سیاسی جماعتوں بی این ایم وغیرہ،بی ایس او جیسے طلباء تنظیموں یا ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس کے ذریعے بلوچ میڈیا اور سوشل بلاگنگ نیٹورکس میں بلوچ خواتین و بچوں کے خلاف ریاستی جبر کے کچھ واقعات کی خبریں شائع بھی ہوتی رہی ہیں جیسے کہ دسمبر 2012 میں مشکے کے پہاڑی علاقہ میری میں میر ساہو نامی شخص کے گھر پر ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ و بمباری میں میر ساہو کی شریک حیات محترمہ صد گنج اور اس کی چار سالہ نواسی بختی بلوچ سمیت سات افراد کی شہادت کا واقعہ, جولائی 2015 میں آواران کے پہاڑی علاقوں میں بلوچ رہنما ڈاکٹر اللّہ نذر بلوچ کے خلاف فوجی آپریشن کے وقت چند خواتین اور بچوں کی شہادت، 2020 میں پیراندر، آواران سے آزادی خواہ رہنما لیاقت بلوچ کی شریک حیات سمیت نصف درجن خواتین اور ان میں سے بعض خواتین کی شیرخوار بچوں کی گرفتاری، انھیں فوجی کیمپ منتقل کرنے اور ان سے اسلحہ کی برامدگی کا جھوٹا مقدمہ میڈیا میں کسی حد تک زیر بحث آئے تھے مگر شہری مراکز میں خواتین اور بچوں کو جبری گمشدگی اور تشدد کا نشانہ بنانے سے ریاستی ادارے کسی حد تک گریز کرتے تھے تاہم اب شہری مراکز میں بلوچ خواتین اور بچوں کو تشدد اور جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔3 فروری 2023 کو گیشکوری ٹاؤن کوئٹہ میں محمد رحیم زہری کے گھر پر چھاپے میں محمد رحیم زہری کو اس کی بوڑھی والدہ، اس کی شریک حیات رشیدہ زہری اور معصوم بچوں سمیت خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغواء کرکے لاپتہ کردیا۔ تین دن کے بعد رحیم زہری کی بزرگ والدہ اور بچوں کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن رحیم زہری اور اس کی بیوی محترمہ رشیدہ زہری کو بدستور لاپتہ رکھاگیا جس کے خلاف وی بی ایم پی سمیت سول سوسائٹی اور بلوچ محب وطن حلقوں نے شدید احتجاج شروع کیا۔ اس احتجاج کے بعد سی ٹی ڈی پولیس کوئٹہ نے محترمہ رشیدہ بلوچ کو منظرعام پر لاکر چھوڑ دیا مگر رحیم زہری تادم تحریر ہذا لاپتہ ہے۔ کسی نام نہاد عدالت، اتھارٹی یا کمیشن نے محترمہ رشیدہ اور اس کی ساس کا بیان قلمبند کرنے یاان سے معلوم کرنے کی زحمت نہیں کی کہ کس نے انھیں اغواء کیا، انھیں کہاں رکھاگیا تھا؟ ابھی تک رشیدہ زہری کے شوہر کی بازیابی اور ان کی جبری گمشدگی کے ذمہدار مجرموں کے تعین کی کوئی کوشش اسلئے نہیں کی گئی کیونکہ جبری لاپتہ کرنے والوں کا سب کو پتہ ہے اور کھٹ پتلی وزیراعظم سمیت کوئی انھیں جوابدہ بنانے کی ہمت، جرات اور طاقت نہیں رکھتا۔

اسی طرح 4 فروری 2023 کو کراچی سنٹرل جیل کے سامنے دن دہاڑے عوام کی نظروں اورصحافیوں کی کیمروں کے سامنے حفیظ زہری، اس کے بھائی یونس زہری، ان کی بہن فاطمہ حمید زہری سمیت ان کی خاندان کے دیگر خواتین پرخفیہ اداروں کے اہلکاروں نے شدید تشدد کیا حتیٰ کہ ان پر گولیاں چلائیں جس سے حفیظ کا چھوٹا بھائی شدید زخمی ہوا۔ خواتین اور حفیظ زہری بھی زخمی ہوئے۔خواتین کے بقول جیل میں ڈیوٹی پر معمور پولیس اہلکاروں نے بھی حملہ آوروں کے ساتھ مل کر ان پہ تشدد کیا۔ یاد رہے حفیظ زہری شہید حاجی محمد رمضان کا بیٹا ہے جو کہ انٹیلیجنس اور ایف سی کے ہاتھوں 2010 میں اپنے چھوٹے بھائی 14 سالہ مجید زیری اور 2012 میں انٹیلیجنس اور خضدار میں فوج کی زیرسرپرستی متحرک مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں اپنے عمر رسیدہ والد حاجی محمد رمضان کی قتل اور اپنے کاروبار اور املاک پر حملوں کے بعد دبئی منتقل ہوا تھا جسے یو اے ای کی پولیس نے پاکستان کی درخواست پر27 جنوری 2022 کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا۔ پاکستان نے حسب دستور عبدالحفیظ زہری کو لاپتہ رکھا جس پر حفیظ کے لواحقین نے سندھ ہائی کورٹ میں اس کی بازیابی کیلئے ایک پٹیشن دائر کی جو 29 مارچ 2022 کو سماعت کیلئے منظور ہوئی۔ اپریل 2022 میں کراچی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ عبدالحفیظ زہری سندھ اسلحہ ایکٹ کے تحت ایک مقدمہ میں زیرحراست ہے ایف آئی آر کے مطابق 31 مارچ 2022 کو پولیس نے حفیظ زہری کو مبارک شہید روڈ کراچی سے گرفتار کیا ہے جس کے قبضہ سے ایک پستول برامد ہوا ہے۔ انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے بالآخر 3 فروری 2023 کو اس جھوٹے مقدمہ میں عبدالحفیظ کو بری کردیا۔ 04 فروری کو عبدالحفیظ کا بھائی یونس زہری، اس کی بہن محترمہ فاطمہ زہری اور خاندان کے دوسرے خواتین اور بچے حفیظ زہری کو جیل سے گھر لانے کیلئے سنٹرل جیل کراچی گئے جیسے ہی وہ جیل سے نکلے تھے ایک سفید ویگو گاڑی میں خفیہ اداروں کے کارندوں نے جیل کے عین سامنے ان کا راستہ روکا اور ان پر حملہ کرکے حفیظ کو دوبارہ اغوا کرنے کی کوشش کی مگر خواتین نے شدید مزاحمت کرکے اغوا کی کوشش تو ناکام بنادی مگر اس کھینچا تانی میں حفیظ اور اس کا بھائی یونس حملہ آوروں کی تشدد اور فائرنگ سے کافی زخمی ہوئے۔ عوام اور کیمروں کے سامنے حفیظ کو دوبارہ لاپتہ کرنے کی اس اقدام کے دوران خواتین کو بھی بُری طرح زد و کوب کیا گیا۔یہ بلوچ قوم کے خلاف جاری ریاستی دہشتگردی کا ایک کھلا اقدام تھاجس کی ویڈیو فوٹیج سوشل میڈیا میں براہ راست نشر ہوا مگر انسانی حقوق کی تحفظ کے نام پر قائم درجنوں پاکستانی اور عالمی اداروں کو توفیق نہ ہوئی کہ اس مجرمانہ عمل کے ذمہدار مجرموں کی جوابدہی کیلئے پاکستانی حکام پر کسی طرح کا کوئی دباؤ ڈالیں۔

بلوچ خواتین اور بچوں کے خلاف پاکستانی ریاستی دہشتگردی کا ایک اور واقعہ 17 فروری 2023 کی رات سیٹلائیٹ ٹاؤن کوئٹہ میں رونما ہواجہاں پولیس کی وردی میں ملبوس سی ٹی ڈی کے دہشتگرد محترمہ ماہل بلوچ کے گھر میں گھس گئے، تلاشی کے بہانے بلاجواز گھر میں توڑ پھوڑ کی، محترمہ ماہل بلوچ، اس کی عمر رسیدہ ساس اور دو معصوم بچیوں سمیت گھر کے تمام خواتین اور بچوں کواغوا کرکے لاپتہ کیا۔ رات بھر کی ذہنی حراسانی اور جسمانی تشدد کے بعد محترمہ ماہل بلوچ کی ساس اور چھوٹی بچیوں کو اگلے دن چھوڑ دیا گیامگر ماہل بلوچ کے خلاف سی ٹی ڈی نے ایک جھوٹا مقدمہ درج کرکے اسے نامعلوم مقام پر کسی ازیت خانہ میں منتقل کیا۔

یاد رہے ماہل بلوچ انسانی حقوق کے معروف کارکن اور ہیومن رائیٹس کونسل بلوچستان کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ کی بھابھی ہے ماہل بلوچ کی بازیابی اور رہائی کیلئے ریڈ زون میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا گیاجسے پولیس گردی، دھونس اور دھمکی سے روکنے کی پوری کوشش کی گئی۔ 25 فروری 2023 کو سوشل میڈیا میں وائرل ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ پولیس افسرسراپا احتجاج بلوچ خواتین کو دھرنا ختم کرنے یا پھر پولیس طاقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنے کی دھمکی دے رہا ہے اسی طرح کھٹپتلی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے بھی پولیس کے ذریعے بزور طاقت دھرنا ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ماہل بلوچ تادم تحریر ہذا خفیہ اداروں کی تحویل میں ہے اور 25 فروری کو چوری چھپے ایک ” کینگرو کورٹ” میں سی ٹی ڈی نے محترمہ ماہل بلوچ کو پیش کرکے اسے مزید ریمانڈ میں رکھنے کی منظوری عدالت سے حاصل کرلی۔ اطلاعات کے مطابق پولیس حراست کے دوران غیر انسانی اور غیر قانونی جسمانی تشدد کی وجہ سے ماہل بلوچ بہت کمزور تھی اور عدالتی پیشی کے وقت بیہوش بھی ہوگئی تھی عدالت ماہل بلوچ کی ذہنی اور جسمانی حالت دیکھ سکتا تھامگر یہ عدالت کسی مہذب ملک کا نہیں بلکہ پاکستانی عدالت تھا جن کے بارے میں مشہور ہے کہ پاکستانی عدالتیں مقدمہ کے ریکارڈ میں موجود مواد اور شواہد نہیں بلکہ فریقین کا چہرہ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں پاکستان میں انصاف اندھا نہیں ہوتا بلکہ ججز کی چار چار آنکھیں ہوتی ہیں اور وہ ان آنکھوں سے مقدمہ کا فائل نہیں دیکھتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ سامنے کون کھڑا ہے پاکستانی عدلیہ کی اعمال کا عکس عالمی درجہ بندی میں ان کے مقام سے بخوبی ہوجاتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہری مراکز میں بلوچ خواتین اور بچوں کو تشدد اور جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے جانے کی اس ریاستی پالیسی اور مہم کا مقصد اور محرکات کیا ہیں؟اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے بلکہ عام فہم سی ہے بلوچ خواتین اور بچوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی اور تشدد کی اس پالیسی کا مقصدبظاہر بلوچ خواتین کو خوفزدہ اور خاموش کرانا ہے کیونکہ بلوچ تحریک آزادی کی جمہوری بازو کے خلاف ریاستی دہشتگردی اور فسطائیت پر مبنی پالیسی کے نتیجے میں جمہوری محاذ پر سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بی این ایم جیسے آزادی خواہ بلوچ سیاسی جماعتوں اور بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او آزادکو کالعدم قرار دے کران پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندی لگائی گئی ہے وہ کسی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔اسی طرح مقبوضہ بلوچستان میں ذرائع ابلاغ کو بھی بدترین پابندیوں کا سامنا ہے۔ مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جبر اور دہشتگردی بالخصوص جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد کے جمہوری محاذ پر صرف بلوچ خواتین اور بچے مستقل طور پر متحرک ہیں ظلم و جبر کے خلاف بلوچ خواتین اور بچوں کی اس جہد مسلسل نے قابض پاکستان کے حکمرانوں کی نیند حرام کردی ہے فوج اور خفیہ ادارے کسی نہ کسی طرح مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جبراور بلوچ نسل کشی کے خلاف خواتین کی دلیرانہ جدوجہد سے جان چھڑانا چاہتے ہیں سنٹرل جیل کراچی کے سامنے سے حفیظ زہری کے ا غوا کی کوشش کے وقت اس کی بہن محترمہ فاطمہ حمید بلوچ اور دوسرے خواتین پر ریاستی اہلکاروں کی تشدد کا بہیمانہ واقعہ ہو یا رشیدہ رحیم بلوچ، اس کی ساس اور بچوں کی جبری گمشدگی یا پھر محترمہ ماہل بلوچ، اس کی معصوم بچیوں اور ساس کا اغواء اور ماہل بلوچ کے خلاف سی ٹی ڈی کا جھوٹاو منگھڑت مقدمہ اور قید میں رکھنے کا عمل، یہ سب کچھ دراصل بلوچ خواتین کو ڈرانے، خوفزدہ اور خاموش کرنے کی ریاستی کوششوں کی کڑیاں ہیں۔

٭٭٭

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں