کون آزاد کون غلام

0
89

1988کی بات ہے جب سوشل میڈیا کا نامو نشان نہیں تھا۔ بارڈار اور ایل او سی کے اسطرف کے لوگ رات نو بجے پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے آکلوتے چینل پر خبرنامے کو ہی سچ مانتے تھے۔ ہر رات 9 بج کر 25 منٹ پر کشمیر فائل دیکھتے تھے۔۔۔ جس میں ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کو دوزاخ جبکہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کو آزاد اور جنت بناکے دیکھایا کرتے تھے۔۔۔ پی ٹی وی پر یہ بات کہی جاتی تھی کہ سری نگر میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے جبکہ مظفر آباد میں دودھ کی نہری بہتی ہیں۔۔۔ آگے چل کے پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے پنڈی میں کشمیر سیل قائم کیا۔۔۔ بالاکوٹ , مریدکے, عباس پور نیلم اور سرساوں میں جہادی کیمپس بنائے گئے۔۔۔۔ ان کیمپس میں پہلے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے نوجوانوں کو گمراہ کرکے جہاد کی طرف مائل کیا گیا۔ آگے چل کے سری نگر سے بھی نوجوانوں کو یہاں لاکے ٹرینگ کرائی گئی۔۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ 2006 تک چلتا رہا۔ اس پراپگنڈے کے سبب نام نہاد آزاد کشمیر کے باسی خود کو آزاد اور سری نگر والوں کو غلام سمجھنے لگے۔۔۔۔۔۔ اسی پراپگنڈے سے متاثر ہوکے وادی سے سینکڑوں خاندان ایل او سی کراس کرکے مظفر آباد آئے۔ ہزاروں نوجوانوں نے بندوق اٹھائی۔ ۔۔۔۔ 9/11 کے بعد حالات بدل گئے۔ 2000 میں سوشل میڈیا کی آمد ہوئی اور سوشل میڈیا نے پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ سری نگر اور مظفر آباد جبکہ کرگل لداخ اور گلگت بلتستان کے درمیان اصل فرق کو واضع کرنا شروع کیا۔
دوسری طرف 2016 میں سمارٹ فونز کی آمد نے سب کچھ عیاں کیا۔۔۔
2015کے بعد ہندوستان معاشی , سیاسی اور عالمی محاظ پر مضبوط ترین بن گیا جبکہ پاکستان معاشی , سیاسی اور عالمی سطع پر نیچے آنے لگا۔۔۔ سوشل میڈیا پر سری نگر کا اصل چہرہ سامنے آنے لگا۔ کانگریسی حکومتوں نے سری نگر میں موجود پاکستانی سہولتکاروں کو چھوٹ دے رکھی تھی۔ 2018 کے بعد مودی کی بی جے پی سرکار نے ایک طرف سری نگر میں موجود پاکستانی ایجنٹوں کا گیرا تنگ کرنا شروع کیا دوسری طرف سری نگر , جموں ہونچھ اور کرگل لداخ میں ترقی کے نئے دور کا آغاز یوا۔ پاکستان دس سال میں میرپور کے ہریام پُل مکمل نہیں کرسکا جبکہ انڈیا نے دنیا کی بڑی سرنگ نکل کے جدید ٹرین کو کرگل لداخ پہنچایا۔۔۔۔ سر
2019 کے اصلاحات کے بعد سری نگر کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اور سری نگر والوں کے ساتھ ساتھ مظفر آباد اور گلگت والوں نے یہ سب کُچھ سوشل میدیا پر دیکھا۔ سری نگر میں اعلی تعلیمی ادارے چل رہے ہیں جبکہ گلگت اور مظفر آباد میں تعلیم کا بُرا حال ہے۔۔
سری نگر میں ہنڈی کرافٹ کی انڈسٹری عالمی سطع پر ترقی کر رہی ہے۔۔۔ مظفر آباد کی آدھی آبادی روزگار کے تلاش میں سعودیہ اور یوروپ کے خاک چھان رہی ہے جبکہ سری نگر میں روزگار کے مواقعے دستیاب ہیں۔۔۔۔
ہندوستان دنیا کی پانچوی مضبوط معشیت بن چکا ہے جبکہ ہاکستان ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اب کل عید کا تہوار ہے ۔ رمضان اور عید کے موقع پر ہندوستانی بی جے پی سرکار سری نگر , جموں اور کرگل کے لوگوں کو سستی اور معیاری اشیا فراہم کر رہی جبکہ ایل او سی کے اس طرف مظفر آباد,میر پور, گلگت اور سکردو کے لوگ آٹا, گھی, مسالوں, کھانے پینے کی اشیا کے لئے ترس رہےہیں۔۔۔
سوشل میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس وقت سری نگر اور کرگل کے مسلمان عید کی بھرپور تیاریاں کر رہے ہیں۔ بازاروں میں رش ہے۔ ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔۔۔ سری نگر کے لوگ بہت خوش نظر آرہے ہیں دوسری طرف مظفر آباد میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ اپنی مرضی کی کٹھ پُتلی حکومت بنارہی ہے۔ مظفر آباد اور گلگت کے لوگ عید کے لئے گوشت اور آٹے کی لائینوں میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔۔۔۔۔ پاکستانی معشیت کی وجہ سے مظفر آباد اور گلگت کے لوگ عید کی خوشیاں منانے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔۔۔ دوسری طرف سری نگر اور کرگل کی مسلم آبادی جوش و خروش سے عید منارہے ہیں ۔۔۔ وقت بدل چُکا ہے۔ اب گلگت اور مظفر آباد کے لوگوں کو یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ پاکستان سے اب محبت ممکن نہیں ۔اب مظفر آباد اور گلگت کے لوگ پاکستانی پراپگنڈے ست ہرگز ٹریپ نہیں یوسکتے کیونکہ ب ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ گلگت اور مظفر آباد والے بدترین غلام ہیں جبکہ وادی والوں کی صورت حال ان سے ہزار گنا بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں