بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے بانک کریمہ بلوچ کی شہادت کے بعد کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کینیڈا کی حکومت سے رابطہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ محض اس جرم کو چھپانے کیلئے حرکت میں آگئی ہے کیونکہ ساری دنیا واقف ہے کہ بانک کریمہ بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ پاکستان کی بربریت سے بچنے کیلئے مہذب ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ زندہ رہ کر اپنی قوم کی خدمت کرسکیں۔ اب پاکستان کس منہ سے کریمہ بلوچ کی شہادت کی تحقیقات کیلئے کینیڈا کی سرکار سے خط و خطابت میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرنے پر کریمہ بلوچ کو بی بی سی کی ایک سو بااثر خواتین میں شامل کیا گیا تو پاکستانی آفیشلز کا یہ بیانیہ سامنے آیا کہ بی بی سی نے غفلت میں اس کا نام شامل کیا ہے۔ آج ان کی بیرون ملک اپنوں سے ہزاروں کلومیٹر دور شہادت پر پاکستان کی جانب سے بے جا مداخلت اور تعزیت کا اظہار بلوچ قوم کے غم و اندوہ کی حدت میں اضافہ کرنے اورہمارے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے پاکستانی نیشنل قرار دینا ہماری قومی جدوجہد اورشہدا کی توہین ہے۔ بلوچ قوم کی کسی بھی فرزند نے بلوچیت سے دستبردار ہوکر پاکستانی ہونا قبول نہیں کیا ہے۔ بانک کریمہ بلوچ تو آزادی کے جدوجہد میں برسرپیکارتنظیم کی سربراہ رہ چکی ہیں اور ایک آزادی پسندپارٹی میں شامل تھیں۔ پاکستان کی ظلم، جبر و بربریت کے خلاف جدوجہدمیں مصروف بلوچ قوم کیلئے پاکستانی کہلانا ایک گالی بن چکی ہے۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ کریمہ بلوچ کو پاکستانی ہائی کمیشن کیونکر اپنا شہری قرار دے رہا ہے جبکہ وہ انہی کی وجہ سے جلاوطن ہوگئی تھیں۔ انہیں یہاں بھی دھمکیاں ملتی رہیں۔ ساتھ ہی وہاں اس کی سیاسی پناہ کی اپیل میں مداخلت کیا گیا۔ پاکستان کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اس نے کریمہ بلوچ کی کئی سیاسی دوستوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا ہے اور شہید کیا ہے۔ ان کے چاچا، ماموں اور کزن کو بھی شہید کیا گیا ہے۔ انہیں لاپتہ کرنے کے لئے ان کے گھر پر کئی دفعہ چھاپہ مارا گیا اور مارٹر فائر کئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کینیڈا پولیس کی موجودہ بیانیہ کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ پاکستانی ایک بدمعاش اور دہشت گرد ریاست ہے۔ اس کی بدماشیوں کا اعترافی بیان جنرل مشرف کی ویڈیو میں سوشل میڈیا میں وائرل ہے۔ چوہدری نثار بھی ایک جگہ اعتراف کرچکا ہے کہ اسے اور شہباز شریف کو جنرل مشرف نے فورس کیا ہے کہ وہ بیرون ملک لوگوں کو نشانہ بنائیں گے اور ان کا نام بھی نہیں آئے گا۔ جس طریقہ وارادات سے ساجد حسین بلوچ کو قتل کیا گیا، بانک کریمہ بلوچ کے قتل لئے وہی طریقہ واردات استعمال ہوا۔ لہٰذا ہم پاکستانی ہائی کمیشن کی کینیڈا سرکار سے تحقیقات کی اپیل اور ان کی تعزیت کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چین کی مدد سے پاکستان نے وہ پیچیدہ آلات حاصل کئے ہیں جس سے کسی کو بھی قتل کرکے کوئی نشان نہیں چھوڑا جاتا۔ قاتل کے نام نہاد تعزیت کرنے سے بلوچ قوم کا غم اور غصہ کم نہیں ہوگا اور نہ ہی بلوچ اپنے قاتل کو بھول پائے گا۔ بانک کریمہ بلوچ اپنے خاندان سے نہیں بلکہ بلوچ قوم سے چھینے گئے ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بربریت سے ہزاروں بلوچ یورپ، کینیڈا، امریکہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، ایران اور افغانستان سمیت دوسرے ملکوں میں پناہ لے چکے ہیں، کی حفاظت کرنا ان کا فریضہ ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد افغانستان اور ایران میں ہے۔ اقوام متحدہ کی ادارے برائے پناہ گزین کو چاہیئے کہ وہ افغانستان اور ایران میں موجود ہزاروں بلوچوں کو پناہ گزین تسلیم کرکے انکی رجسٹریشن سمیت حفاظت کیلئے اقدامات اٹھائے۔ اگر اسی طرح بلوچ پناہ گزینوں کو نظرانداز کرکے پاکستانی مظالم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو یہ ان اداروں پر کئی سوالات کو جنم دے گا۔