جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن نہیں دینی چاہیے تھی، وہ ایکسٹینشن لیتے ہی بدل گئے: عمران

0
81

پاکستانی سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو مجھے کبھی ایکسٹینشن نہیں دینی چاہیے تھی، وہ ایکسٹینشن لیتے ہی بدل گئے۔

نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان کا کہناتھا کہ شروع میں کافی شک تھے، ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا، ایک بات جنرل (ر) باجوہ کہتے تھے ایک گراؤنڈمیں ہورہی تھی، ایجنسیز ہمارے لوگوں کو توڑ رہی تھیں، وہ کہہ رہے تھے ہم نیوٹرل ہیں، یہ پلان 2021 کی گرمیوں میں بن گیا تھا، اس کے بعد کام شروع ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت میں باجوہ نے حسین حقانی کو ہائرکیا، انھوں نے میرے خلاف امریکا میں مہم چلائی کہ میں امریکا کے خلاف ہوں، حسین حقانی کی ٹوئٹ بھی ہے، حسین حقانی کے ساتھ سی آئی اے کا بھی کوئی آدمی تھا، ہمارےدور میں بطور لوبیسٹ ہائر ہوا، وہ امریکا میں میرے خلاف کام کررہا تھا، ڈونلڈ لوکاجو معاملہ شروع ہوا وہ اُدھر سے نہیں وہ یہاں سےشروع ہوا۔

ان کا کہنا تھاکہ سب پلان بناہواتھا، مجھےتویہ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہواکیاہے؟ یہ کہنا شروع ہوگئے میں فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتا ہوں، 2021 کی گرمیوں میں میں نے کبھی سوچابھی نہیں تھا اگلےسال آرمی چیف کون ہوگا، آہستہ آہستہ جب آپ دیکھتےہیں توسمجھ آتا ہےاس کے پیچھے پوراایک پلان تھا اور پلان یہی تھاکہ شہباز شریف کو لے کر آنا ہے، مجھے ہٹانا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ باپ اور ایم کیوایم کواسٹیبلشمنٹ کنٹرول کرتی تھی، ان کو کیسے دھکیلا گیا، شاہ زین بگٹی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے علاوہ کھانا نہیں کھاتا تھا، وہ گیا تب ہمیں واضح ہوگیا، ہمیں آخرمیں معلوم ہوا کہ یہ ان کا پلان بنا ہوا ہے، ایک جنرل (ر) باجوہ ایکسٹینشن سے پہلے تھے ایک بعد میں تھے، ایکسٹینشن کےبعد انھوں نے اسمبلی کے اندر ساری پارٹیز کو ساتھ ملایا اور ن لیگ کوخاص طورپرآن بورڈلیا، تب ہی ان کی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تھی، ان کے سارے کیسز سے پیچھے ہٹ گئے۔

ان کا کہنا تھاکہ اچانک قمر جاوید باجوہ کہنا شروع ہوگئے دیکھیں، معیشت کوٹھیک کریں،احتساب بھول جائیں، این آر اوکی باتیں شروع ہوگئیں کہ چھوڑیں،آپ کیوں پڑے ہوئے ہیں، سمجھوتا ادھر ہوگیا تھا،سمجھوتا یہ تھا کہ کیسز سے پیچھے ہٹیں، باجوہ پر بھروسہ کرتاتھا حالانکہ آثار دوسرے بھی تھے ، سوچتا تھا اسٹیبلشمنٹ میری طرح سوچتی ہے،اس کااسٹیک پاکستان میں ہے۔

سابق وزیراعظم نے بتایا کہ اگست میں قمر جاوید باجوہ سے آخری میٹنگ ہوئی، انہوں نےعجیب بات کی،آپ کے لوگوں کےاوپر فائلیں ہیں، آپ کے لوگوں کی آڈیوز و ویڈیوزہیں، آپ بھی پلے بوائے تھے، اس پر میں نےکہا کہ میں تھا، میں توکبھی نہیں کہاکہ میں کوئی فرشتہ تھا، گناہ گار آدمی تھا، میں نے پوچھا ہماری ایجنسیز کا یہ کام ہےلوگوں کوبلیک میل کرنےکیلئے فائلیں بنائی جائیں؟ تاکہ ان کو کنٹرول کرسکیں، تب میں سمجھا ان کی سوچ ہمیں ہٹانے کیلئے ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ عوام میں ہماری مقبولیت دیکھ کر باجوہ کوپالیسی ری ورس کر لینی چاہیے تھی لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ وہ اسی پالیسی پر چلتے رہے اور بجائے تبدیل کرنے کے انہوں نے سختیاں کیں، ظلم کیا۔

ان کہنا تھاکہ جیسے ہی ہمیں ہٹایا، مجھ پر ہر روزکیسز پرکیسز بننا شروع ہوگئے اور پھر آڈیوز نکلنی شروع ہوگئیں، وزیر اعظم کی سکیور لائن کون ٹیپ کررہا تھا؟ یہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیخلاف ہے، مجھےکیااین آراودیا ؟ میں نے کیا کیا تھا کہ مجھے این آر او ملے؟ کون سی چیز تھی جس پر مجھے کسی نے بچایا ہو؟ شریفوں کے لندن میں فلیٹس تھے ، یہاں سے چوری کرکے پیساباہربھیجاگیا، لندن میں میرا ایک فلیٹ تھا ، ثاقب نثار کی عدالت نے وہ انویسٹی گیٹ کیا، میں توحلال کی کمائی پاکستان لے کر آرہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ قمر جاوید باجوہ شہبازشریف کے بہت قریب تھے، اپریل میں جب ہماری حکومت گئی تو پاکستان کہاں کھڑا تھا، حکومت کی بہترین پرفارمنس تھی، ہمیں ہٹایا گیااورچوروں کو مسلط کیاگیا، پاکستان آج ڈیفالٹ پرکھڑا ہے، اس ساری صورت حال کاتو ذمے دار کو ایک ہی آدمی ہے، لبنان میں یہی ہواکہ اوپر کرپٹ لوگ بیٹھ گئے اور ملک کمزور ہوگیا۔

پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھاکہ جوآرمی چیف ہےوہی اسٹیبلشمنٹ ہے، اگر مجھے معلوم ہوتا یہ احتساب نہیں کریں گے تو اسی وقت اسمبلیاں توڑ دیتا، باجوہ کو مجھے کبھی ایکسٹینشن نہیں دینی چاہیے تھی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں