عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ’بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا درحقیقت یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہم اپنے معاملات، اپنی معیشت کو خود سنبھالنے میں ناکام ہوگئے ہیں‘۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنرز شاہد حفیظ کاردار اور رضا باقر کے ساتھ ساتھ پنجاب کی سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا بھی سیشن میں شامل تھیں۔
شاہد خاقان عباسی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک نے 24 مرتبہ آئی ایم ایف پیکجز حاصل کیے لیکن ہر بار اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا کیونکہ برآمدات پر مبنی شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی جو کہ قومی اقتصادی مسائل کا واحد حل ہے۔
معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکمران آٹا بانٹنا شروع کرتے ہیں جس میں 40 فیصد چوری ہوتی ہے، آپ کی انڈسٹری کی گروتھ ہو ہی نہیں سکتی، اگر سیاسی معاملات کو درست نہیں کریں گے تو یہ معاملات درست نہیں ہوں گے، کسی خام خیالی میں نہ رہیں، تمام چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔
معاشی ترقی پر آئی ایم ایف کی شرائط کے منفی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے رقم نہیں دی بلکہ اپنے سابقہ قرضوں کی وصولی کے لیے دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بیمار معیشت کو ٹھیک کرنے کا حل سیاسی استحکام اور سرمایہ کاروں کو تحفظ کا احساس دلانے کے لیے منصفانہ عدالتی نظام میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ آنے والے بجٹ میں عوام کے لیے کسی ریلیف کی امید نہیں رکھتے کیونکہ آئی ایم ایف ہدف کی بنیاد پر فنڈز دے گا۔