بلوچستان کی مزاحمتی تاریخ: ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی جدوجہد اور جبری گمشدگیوں کا مسئلہ

0
128

بلوچستان اور بلوچوں نے کبھی پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا، اور یہ حقیقت تاریخی، سیاسی، اور سماجی پہلوؤں میں واضح نظر آتی ہے۔ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے بلوچستان کی مزاحمت کی تاریخ کو کئی مراحل اور مختلف افراد و تنظیموں کی کوششوں نے جنم دیا ہے۔ بلوچستان کے پاکستان میں شامل ہونے کی تاریخ متنازع رہی ہے۔ 1948 میں خان آف قلات، میر احمد یار خان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا، مگر یہ فیصلہ بلوچ عوام اور سرداروں کے لئے غیر متوقع اور غیر مقبول تھا۔ اس کے فوراً بعد بلوچستان میں مزاحمت شروع ہو گئی۔ بلوچ قوم پرست اس الحاق کو زبردستی کا عمل سمجھتے ہیں اور اسے تسلیم نہیں کرتے۔

بلوچستان میں سب سے پہلے مزاحمتی تحریک 1948 میں شروع ہوئی جب خان آف قلات کے چھوٹے بھائی، پرنس کریم خان، نے مسلح بغاوت کی قیادت کی۔ یہ تحریک جلد ہی ناکام ہوگئی اور کریم خان کو گرفتار کر لیا گیا، مگر یہ بلوچستان کی مزاحمتی تاریخ کا آغاز تھا۔ 1958 میں، بلوچستان میں ایک بار پھر مسلح بغاوت کی گئی، جس کی قیادت نواب نوروز خان نے کی۔ نوروز خان نے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی مگر انہیں دھوکہ دیا گیا اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ اس واقعے نے بلوچ عوام میں بے چینی اور ناراضگی کو مزید بڑھا دیا۔

 بلوچستان میں 1973میں سب سے بڑا مسلح بغاوت شروع ہوئی جس کی قیادت بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ بغاوت کو ایران اور عراق سے بھی حمایت ملی۔ پاکستان آرمی نے اس بغاوت کو کچلنے کے لئے بڑے پیمانے پر آپریشن کیے، جس میں ہزاروں بلوچ مارے گئے اور بے شمار لوگ بے گھر ہوئے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں بلوچ مزاحمت نے ایک نئی شکل اختیار کی۔ بلوچ نیشنل موومنٹ  اور بلوچستان لبریشن آرمی  جیسی تنظیموں نے پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی۔ یہ تنظیمیں بلوچ حقوق اور آزادی کے لئے سرگرم ہیں۔

بلوچستان میں 2000 کے بعد مزاحمت کی نئی لہر آئی۔ نواب اکبر بگٹی کی قیادت میں ایک بڑا مسلح بغاوت 2006 میں شروع ہوئی۔ بگٹی کی ہلاکت کے بعد، بلوچستان میں حالات مزید خراب ہوگئے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریپبلکن آرمی جیسی تنظیمیں بھی اس تحریک کا حصہ بن گئیں۔ آج بھی بلوچستان میں مزاحمتی تحریک جاری ہے۔ مختلف تنظیمیں اور افراد بلوچ حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی عوامی زندگی میں ریاستی ظلم و ستم، گمشدگیوں، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات عام ہیں۔ بلوچ قوم پرست آج بھی خودمختاری اور حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بلوچستان میں مختلف مزاحمتی تحریکوں کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، بلوچستان میں گمشدگیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔ بلوچستان کی مزاحمت کی تاریخ ایک طویل اور پیچیدہ کہانی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ بلوچ عوام کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہمیشہ متنازع رہی ہے اور یہ تنازعہ اب بھی جاری ہے۔

جہاں مردوں کی قربانیوں اور کاوشوں کی ایک طویل داستان ہے وہاں بلوچ خواتین بھی میدانِ عمل میں سرگرم ہیں جن میں ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا نام بھی جلی حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے بلوچ حقوق کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انہوں نے نہ صرف علمی میدان میں بلکہ عملی طور پر بھی بلوچ عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کی۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص طور پر جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے مظلوم بلوچ خاندانوں کی داد رسی کی کوشش کی اور ان کی نمائندگی کی۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔ ہزاروں بلوچ نوجوان، سیاسی کارکن، اور عام شہری لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا اور عالمی اداروں سے مدد کی اپیل کی۔ ان کی جدوجہد نے بلوچ عوام میں امید اور حوصلہ پیدا کیا ہے۔

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی کاوشیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ بلوچ قوم کے حقوق کی جنگ اب بھی جاری ہے اور اس کی رہنمائی ایسی باہمت شخصیات کر رہی ہیں جو ہر حال میں اپنی قوم کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان کی خدمات اور قربانیاں بلوچ عوام کے لئے مشعل راہ ہیں اور ان کی جدوجہد بلوچ حقوق کی تحریک میں ایک اہم سنگ میل ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں