بلوچستان انسانی المیہ: ڈاکٹر نسیم بلوچ کا سربراہان مملکت سے بلوچستان میں مداخلت کی اپیل

0
37

چیئرمین بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے جمہوری ممالک کے سربراہان سے ہنگامی بنیادوں پر انسانی المیے سے دوچار بلوچستان میں اقوام متحدہ کی جانب سے ‘فیکٹ فائنڈنگ مشن’ سمیت تین اہم مطالبات کیے ہیں۔ جمہوری ممالک کے سربراہان کے نام جاری خط میں لکھا ہے کہ میں بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ بلوچ قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ریاستی جبر، ظلم و ستم اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہے۔ اس کی جڑیں 1948 میں پاکستانی ریاست کے جبری الحاق میں پیوست ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی عسکری تشدد اور بلوچ نسل کشی کی نئی لہر صدی کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں پاکستانی فوج، خفیہ ادارے اور فوج کے تشکیل کردہ جرائم پیشہ مسلح گروہ پورے بلوچستان میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ پاکستانی فوج بلوچ قوم کو اجتماعی سزا کی جارحانہ حکمت عملی کے تحت بلا تفریق نشانہ بنارہی ہے۔ اس وقت ہزاروں بلوچوں کو جبراً گمشدہ کرکے پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں میں قید کیا گیا ہے۔ جبری گمشدگی کے مسلسل واقعات نے بلوچ سماج کو شدید ہیجان اور نفسیاتی دباؤ کا شکار بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے لکھا ہے کہ میں آپ کی توجہ بلوچستان کے طول و عرض سے ملنے والی مسخ لاشوں کی جانب بھی دلانا چاہتا ہوں۔ تاحال سیکڑوں جبراً لاپتہ بلوچوں کی ناقابل شناخت لاشیں مل چکی ہیں جنہوں نے ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے متعدد اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوچکی ہیں۔ پاکستانی فوج متعدد دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹا چکی ہے۔ سیکڑوں گھروں کو نذر آتش کیا جاچکا ہے۔ نسل کشی کا یہ عمل تادم تحریر پوری شدت کے ساتھ برقرار ہے، لیکن معلومات کے جدید ذرائع ہونے کے باوجود عالمی سطح پر بلوچ مسئلے کی شدت اور اس کے انسانی پہلو کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے اس سنگین انسانی مسئلے پر آنکھ بند کئے بیٹھے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے 2011 کو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے ایک نمائشی دورہ کیا جو کوئٹہ کے فائیو اسٹار ہوٹل تک محدود رہا۔ اس کمیشن نے بلوچ متاثرین تک یا تو پہنچنا ضروری نہ سمجھا یا پاکستانی حکام نے انہیں پہنچنے نہ دیا۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ بلوچ اپنی نسل کشی کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں مگر پاکستانی ریاست معمولی احتجاجی مظاہروں کو بھی سختی سے کچل دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تازہ سلسلہ 27 جولائی 2024 سے تاحال جاری ہے۔ جبری گمشدگیوں اور نسل کشی کے خلاف بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 28 جولائی کو ایک “راجی مچی” یا قومی اجتماع کا انعقاد ہونے جا رہا تھا۔ کراچی اور پنجاب سمیت بلوچستان بھر سے عوام رضاکارانہ طور پر اس راجی مچی میں شرکت کرنے کے لئے نکلے۔ پاکستانی فوج نے لوگوں کو روکنے کے لئے تمام شاہرائیں بند کردیں، نہتے لوگوں پر گولیاں چلائیں، ان کی گاڑیوں کو فائرنگ کے ذریعے ناکارہ بنایا یا انہیں نذرآتش کردیا۔

بی این ایم چیئرمین نے لکھا ہے کہ تمام رکاوٹوں اور مصائب کے باوجود ہزاروں لوگ گوادر پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد راجی مچی پر حملہ کرکے گوادر شہر کو لہولہان کیا گیا۔ قومی اجتماع کی قیادت کو گرفتار کیا گیا۔ اپنے وحشیانہ مظالم اور گھناؤنے جرائم کو چھپانے کے لئے مواصلاتی ذرائع بشمول انٹرنیٹ کو بند کردیا گیا۔ یہ پابندی ہنوز برقرار ہے۔

مواصلاتی ذرائع اور سڑکوں کی بندش کے باعث گوادر کی درست صورتحال معلوم کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنا ناممکن ہے۔ گوادر میں پینے کے پانی کی سپلائی لائن کاٹ دی گئی ہے۔ سڑکیں بند کرنے کی وجہ سے گوادر اور دیگر شہروں میں اشیائے خورد و نوش کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستانی فوج اشیائے خورد و نوش کی ترسیل کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ یہ میرے لئے باعث افتخار ہے کہ حالیہ بلوچ مزاحمتی تحریک کی قیادت دو نڈر جوان خواتین ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمّی بلوچ کر رہی ہیں۔ اس مزاحمتی تحریک کا ہر اول دستہ بھی بلوچ خواتین ہیں۔ سمی بلوچ کے والد دین محمد بلوچ “بلوچ نیشنل موومنٹ” کے مرکزی رہنما ہیں جو گزشتہ پندرہ سالوں سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبراً لاپتہ ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد میر غفار لانگو کو پاکستانی فوج نے دو دفعہ جبراً لاپتہ کیا۔ انہیں دوسری دفعہ جبراً گمشدہ کرکے خفیہ عقوبت خانوں میں بدترین اذیتیں دے کر قتل کیا گیا اس کے بعد ان کی مسخ لاش پھینکی گئی۔ یاد رہے سمّی بلوچ کو حال ہی میں فرنٹ لائن ڈیفنڈر برائے انسانی حقوق کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جس کو انہوں نے بلوچ جبری گمشدگان کے لواحقین کے نام کیا۔ بلوچ خواتین کی جدوجہد خطے میں ایک نئی اور بے نظیر مثال ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے جمہوری ممالک کے سامنے تین اہم اپیل کیے ہیں:

  1. بلوچستان میں انسانی المیے کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کا “فیکٹ فائنڈنگ مشن” بھیجنے کی قرارداد لائیں۔
  2. ہم آپ سے بلوچوں کی نسل کشی، ریاستی تشدد اور بلوچستان میں بنیادی آزادیوں کی پامالیوں کی مذمت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
  3. ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالیں کہ وہ قومی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔

بی این ایم کے چیئرمین نے اپنے خط کے آخر میں لکھا ہے کہ بلوچستان کی صورتحال ہماری مشترکہ جمہوری اقدار اور اصولوں کے لیے آزمائش ہے۔ اس انسانی بحران پر آپ کا مثبت ردعمل نہ صرف لاکھوں بلوچوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالے گا بلکہ پوری دنیا میں جمہوری اقدار کی مضبوطی اور تحفظ کے طور پر ابھرے گا۔ ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ ایسے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھائیں جس سے انسانی اقدار کو بچایا جاسکے۔ ہم آپ کی یکجہتی اور حمایت کے منتظر ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں