جنوری کی 13تاریخ کوعوامی ایکشن کمیٹی پونچھ ڈوثزن کی کال پر ہزاروں کی تعداد میں عوام نے سڑکوں پر نکل کر آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شدید ردِ عمل دیا یہ منظم اجتماعی عوامی ردِ عمل گماشتہ حکمران طبقے کے 73 سالہ عوام دشمن کردار اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف عوام میں موجود شدید نفرتوں کا اجتماعی اظہار تھا۔
عوام نے اپنی منظم طاقت کا بھرپور استعمال کیا جو عوام دشمن حکمران طبقے کو عوام کی طرف سے چنوتی تھی کہ اب عوام اپنے بنیادی حقوق چھین کر لیں گے۔گماشتہ حکمران طبقہ اپنے بیرونی آقاوں کی سہولت کاری کرتے ہوئے ریاستی وسائل کی کھلم کھلا لوٹ کھسوٹ میں معاونت کرتا ہے،اپنے ہی وسائل پر عوام کو کوئی اختیار حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہاں عوام کا دوہرا جبر اور استحصال ہوتا ہے،پسماندہ اور نو آبادیاتی سماجوں میں جہاں بیرونی قبضہ موجود ہو غیر ملکی افواج اور ادارہ موجود ہوں وہاں قومی تضاد سے انکار ممکن نہیں ہے اور پھر دنیا کے کسی بھی خطے میں طبقاتی تضاد سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔چونکہ ہم انتہائی پسماندہ سماج میں رہتے ہیں اس لیے یہاں جب بھی عوام سرگرم ہوتے ہیں تو عوام کے متحرک ہونے پر دو طرح کے انتہا پسندانہ خیالات کھل کر سامنے آتے ہیں جن کا اظہار کبھی دائیں بازو کی سطحی سوچ و فکر کرتی ہے تو کبھی بائیں بازو کی انتہا پسندانہ سوچ و فکر کرتی ہے۔
جس کی واضح مثال جب اگست 2019 کے بعد عوام منظم ہو کر باہر آے تو دائیں بازو کے قوم پرستوں نے طبقاتی سوال اور طبقاتی تضاد کو یکسر مسترد کرتے ہوے کہا کہ مقبوضہ خطوں میں تضاد محض قومی ہی ہوتا ہے جیسے کہ پسماندہ اور مقبوضہ سماجوں میں طبقاتی سوال وجود ہی نہ رکھتا ہو یہ قوم پرستی کی فرسودہ و متروک سوچ و فکر کی غمازی تھی۔
دسمبر 2020 اور جنوری 2021 میں جب عوام آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں تو اب ایک دم سے کچھ قوتیں ہمار? سماج کی مقبوضہ اور پسماندہ نوعیت کو یکسر ایک طرف رکھتے ہوے یہ یہ موقف اپنا رہی ہیں کہ ثابت ہو گیا ہے کہ مقبوضہ سماجوں میں قومی تضاد موجود نہیں ہوتا بلکہ صرف طبقاتی تضاد ہی موجود ہوتا ہے یہ سوچ و فکر باہیں بازو کی انتہاپسندی کی غمازی ہے۔اگر ہمارے سماج کا درست تجزیہ کیا جاے تو یہاں قومی و طبقاتی دونوں تضادات موجود ہیں یہاں قومی و طبقاتی جبر موجود ہے اس دوہر? جبر کے خلاف دوہری لڑائی بنتی ہے۔یہاں کے گماشتہ حکمرانوں کے خلاف طبقاتی لڑائی بنتی ہے اور ان گماشتہ حکمرانوں کی پشت پر کھڑئی بیرونی قابض کے خلاف قومی لڑائی بنتی ہے۔
اگر موجودہ آٹے کی تحریک کا گہرائی سے تجزیہ کریں تو عوام جس سبسڈی کی بحالی کی مانگ کر رہے ہیں وہ مقبوضہ و متنازعہ خطوں کے لیے ہے اور قابض کو یہ سبسڈی اپنے مقبوضہ علاقے کے عوام کو دینا پڑتی ہے۔
اس سبسڈی کا نہ ملنا قومی و طبقاتی دونوں طرح کے جبر کا واضح ثبوت ہے۔مقبوضہ خطوں کی محکوم قوم کی نجات کا علم بلند کرنے کے بجائے قومی سوال کو رد کرنا جابر و قابض بالادست طبقے کی حمایت کرنے کے مترادف ہے جس سے قوموں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے فلسفے کی نفی ہوتی ہے اور بالادستی کے عنصر کو
تقویت ملتی ہے۔آج کے سامراجی عہد میں مزدور بین الاقوامیت کی بنیاد قوموں کے برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوے شیر و شکر ہونے میں مضمر ہے۔آج کی دنیا بیش بہا تضادات کا مجموعہ ہے ہر سماج میں ان تضادات سے بنیادی تضاد کو تلاش کرنا ہی مارکسی تعلیمات کا خاصا ہے۔مزدور بین الاقوامیت کی طرف پیش رفت سرماے پر محنت کی فتح اورسامراج پر محکوم اقوام کی فتح سے ہی ممکن ہے۔جس کے لیے معاشی سوال کے ساتھ ساتھ سیاسی و قومی سوالات کا حل ہونا بھی لازم ہے،جو ہر سماج کے تضادات کا درست تجزیہ کرتے ہوے ہی عوامی جدوجہد سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ سیاسی جدوجہد کو معاشی جدوجہد سے الگ کر کہ دیکھنا فکری ابہام ہے،سیاسی و معاشی جدوجہد لازم و ملزوم ہیں،ایک پسماندہ و محکوم سماج میں جس طرح ملت اسلامیہ جیسی فکر کو فروغ دیکر قومی سوال کو ابہام کا شکار کیا جاتا ہے اور بالادست اور قابض طبقے کی حمایت کی جاتی ہے بالکل اسی طرح محض طبقاتی جدوجہد کے غلاف میں لپیٹے خالی خولی الفاظ کو بھی محکوم قوموں کے قومی سوال کو ابہام کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محکوم اقوام کے خلاف سامراج کی کھلم کھلا حمایت ہے اور مزدور بین الاقوامیت کو پاش پاش کرنے کا عمل ہے۔ایسا وہی گروہ کر رہے ہیں جو پاکستان میں محکوم اقوام کی نجات کی جدوجہد کے مقابل جی ایچ کیو کے بیانیے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔بلوچ جہد کاروں نے اپنے سماج کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوے اپنی قومی آزادی و نجات کی تحریک کو منظم کیا اپنی قومی تحریک کے ایک مراحلے پر پہنچ کر قومی آزادی کی تحریک کو سرداریت کے عنصر سے علحیدہ کیا جو طبقاتی جدوجہد کا خاصا تھا۔یعنی بلوچوں نے قومی و طبقاتی جبر و استحصال کے خلاف چو مکھی لڑائی لڑی جو ہنوز جاری ہے۔اپنے سماج میں موجود تضادات میں سے بنیادی تضاد کو تلاش کیا جو قومی تھا اسے گہرا کیا اور ایک مراحلے پر آ کر اپنی قومی تحریک کو سرداریت سے پاک کرتے ہوے قومی تحریک کو طبقاتی تحریک کے ساتھ منسلک کیا۔بلوچ عوام پر ہونے والے ظلم جبر اور ریاستی بربریت کے خلاف دوٹوک آواز بلند کرنے کے بجائے بائیں بازو کے ان نام نہاد گروپوں نے بلوچ عوام کی اس قومی و طبقاتی بنیادوں پر جاری تحریک کو فرسودہ قرار دیا اور اپنے خالص طبقاتی جدوجہد کے غلاف میں لپیٹے الفاظ کو بلوچ قومی سوال کو ابہام کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جو بلوچوں کا قتل عام کرنے والی قوتوں کی کھلم کھلا حمایت ہے۔جس سماج میں بنیادی تضاد قومی بنتا ہو طبقاتی تضاد ثانوی بنتا ہو وہاں طبقاتی تضاد کو بنیادی بنا کر مسلط کرنے کی میکانکی کاوش بائیں بازو کی انتہا پسندی ہے جو سامراجی قوتوں کے حق میں اور محکوم اقوام اور مظلوم عوام کے خلاف جاتی ہے۔اب یہی گروہ آزاد کشمیر میں ابھرنے والی تحریک کے ابتدائی مراحلے پر ہی عوامی تحریک کو ابہام کا شکار کرنے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔جس کا سد باب لازم ہے۔