بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکرٹری جنرل دل مراد بلوچ نے مرکزی کمیٹی کے چوتھے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کی آزادی کا حق ناقابلِ سمجھوتہ اور ناقابلِ تنسیخ ہے۔ بلوچ کی قربانیاں، قید و بند، شہادتیں اور تشدد کسی ذیلی مقصد کے لیے نہیں بلکہ خالصتاً قومی آزادی کے لیے ہیں۔ آج پاکستان کی جانب سے جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل، اور گھروں کو نذرِ آتش کرنے جیسے اقدامات صرف بلوچ قوم کو محض سزا برائے سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ قومی تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، ایک تاثر یہ بھی پیدا کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ جبری گمشدگی یا لاپتہ افراد کا ہے۔ یہ تاثر کسی حقیقی قومی آزادی کی حامی جماعت کا نہیں بلکہ ان پارلیمانی قوتوں کا ہے جو پاکستانی فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے مفادات کو محفوظ سمجھتی ہیں اور جو قومی موقف کی شدت کو کم کرنے کے لیے انسانی حقوق کو فوقیت دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا چونکہ انسانی حقوق ایک انتہائی حساس اور تکلیف دہ مسئلہ ہے، ہماری مائیں اور بہنیں اس کرب کی شدت سے سڑکوں پر بے ہوش ہو کر گر رہی ہیں۔ ایسا کون سا انسان ہوگا جس کا دل اس تکلیف پر نہ پسیجے۔ اسی وجہ سے ہمارے پارٹی کارکن بھی اس ہولناک صورتِ حال سے متاثر ہو کر انسانی حقوق کو اولیت دینے لگتے ہیں مگر یہ نقطہ نظر پارٹی کے موقف اور بلوچ قومی موقف سے واضح طور پر متصادم اور نقصان دہ ہے۔ ہمیں اس تاثر پر فوری توجہ اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ ہمیں متاثرہ کارکنوں اور حلقوں پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ بلوچستان کا بنیادی مسئلہ انسانی حقوق نہیں بلکہ قومی غلامی ہے۔ انسانی حقوق کے مسائل دراصل قومی تحریکِ آزادی کے ردِعمل میں نوآبادیاتی طاقت ، پاکستان کے جبر کے مظاہر ہیں اور یہ اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک بلوچ اپنی سرزمین کے حقیقی مالک نہیں بن جاتے۔
دل مراد بلوچ نے کہا بی این ایم 2003 سے لے کر آج تک اپنی اساسی اور بنیادی شکل میں قائم ہے اور مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا پارٹی کی قیادت، کیڈر، اور کارکنوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ اس سیاسی بصیرت کو بھی جاتا ہے جس نے اس پارٹی کو موجودہ مقام تک پہنچایا ہے۔ بی این ایم کے برعکس، زیادہ تر جماعتیں اور تنظیمیں وقتاً فوقتاً تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزری ہیں۔ ایک ایسی پارٹی جو تقسیم سے محفوظ رہی ہو، وہ نہ صرف اپنی وحدت کو برقرار رکھتی ہے بلکہ دیگر تنظیموں کو نقصان پہنچتے بھی نہیں دیکھ سکتی کیونکہ یہ اس کی فطرت ہے۔ تاہم، جو قوتیں دوسروں کو تقسیم کرنے، متاثر کرنے، یا نقصان پہنچانے پر یقین رکھتی ہیں، وہ خود بھی مکافاتِ عمل سے گزرتی ہیں اور ہم اس کا بخوبی مشاہدہ کر چکے ہیں۔
لہٰذا، اگر آج کسی بھی حلقے کی جانب سے بی این ایم اور اس کے کارکنوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے یا انھیں پارٹی سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس سے وقتی طور پر پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے مگر یہ عناصر خود بھی نقصان سے محفوظ نہیں رہیں گی کیونکہ یہ فطرت اور دنیا کا اصول ہے۔ تمام بہی خواہوں سے گزارش ہے کہ اس ایک تجربے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گذشتہ پندرہ سالوں کا تجزیہ کریں۔ میرے خیال میں ان کے لیے یہ سبق کافی ہوگا۔
دل مراد بلوچ نے کہا پشتون ہماری برادر قوم ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ پشتون اور بلوچ ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے مہمان اور میزبان رہے ہیں۔ آج افغانستان ایک آزاد ریاست ہے، لیکن پشتون قوم اور ان کی سرزمین کا ایک بڑا حصہ پاکستانی قبضے میں ہے۔ اگر پشتون پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوئی واضح سمت اختیار کرتے ہیں یا کسی اور طریقے سے جدوجہد کا فیصلہ کرتے ہیں، اس فیصلے کا اختیار بلا شرکتِ غیرے پشتون قوم کا ہے۔ تاہم، بطور برادر قوم ہمیں پشتون قوم سے کچھ شکوے بھی ہیں اور ایک اپیل بھی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اور ہیئت مقتدرہ کا ایک بڑی حصہ ہونے کے باجود بلوچ قوم نے کبھی پشتون قوم سے شکوہ نہیں کیا کیونکہ قبل از وقت اس معاملے پر بات کرنا مکار پنجابی ریاست کے شیطانی منصوبے کو کامیاب بناتا۔ مگر آج جس درد اور تکلیف سے پشتون قوم گزر رہی ہے، امید ہے کہ وہ بلوچ کے دکھ کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے۔ لہٰذا، ہم پشتون قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی فوج کا حصہ بن کر بلوچ اور خود پشتون نسل کشی کا حصہ نہ بنیں کیونکہ یہ نہ صرف بلوچ بلکہ خود پشتون قوم کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔