ریاست جموں کشمیر کے ساتھ بے انتہا ہونیوالے مظالم میں سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کشمیری عوام کو پاکستان اپنی پراپٹی سمجھتی ہے اور ہم کشمیریوں کو اسکا احساس نہیں۔دوسری جانب مجموعی طور پر ریاستی عوام آج 2021 میں بھی اپنے ہی مسئلے کو سمجھنے سے مکمل قاصر ہیں اور قابض قوتوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے مسئلہ کو ہی اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں۔
نام نہاد آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں اگر کوئی بھی شخص اپنے بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہوے یہ کہتا ہے کہ پاکستان ہم پہ ظْلم کر رہا ہے تو ایکدم سے ہندوستانی مقبوضہ علاقوں میں ہونے والی بربریت و ظلم و تشدد کی بابت مثال دے کر بات کرنے والے شخص کا نہ صرف مْنہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ انتہاء فراخدلی سے ہندوستانی ایجنٹ ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی دے دیا جاتا ہے جو کہ جہالت پر مبنی نقطہ نظر ہوتا ہے۔ جب آپ دو علاقوں کے درمیان تقابلہ کرتے ہیں تو اْن دونوں علاقوں کے عوام کی حالت، حکومتی کردار سمیت جْملہ چیزوں کو خاطر میں لاتے ہوے نتائج اخذ کرتے ہیں نہ کہ کسی ایک آدھ چیز کو لے کر ایک دم فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں۔
ہندوستانی کشمیر میں خاص کر وادی کشمیر میں (یہی وادی کشمیر جہاں مذہب کو بنیاد بنا کر اپنے مفادات کے لئے پاکستان نے آج تک اسے قربان گاہ بنا کر رکھا ہوا ہے)، ہندوستانی ریاست کے خلاف پاکستان نے درجن بھر اسلحہ بردار جماعتیں بنائے اور بندوق بھی پاکستان سے لیکر یعنی دشمن کا دشمن ہم نے دوست ہیں،بلکہ قابض کے لیے پراکسی اور پھر بھی ہم نے نہیں اسے اپنا مائی باپ بنایا ہوا ہے۔ ہندوستانی کشمیر میں عوام کو بنیادی ضروریات زندگی میسر ہیں،آٹا،چینی سمیت راشن کارڈ وہاں لوگوں کو بنیادی وسائل سمیت وہ تمام ضروریات زندگی کی اشیاء دستیاب ہیں،۔ جبکہ پاکستانی نام نہاد آزاد کشمیر میں آٹا سمیت ضروریات زندگی سمیت ہمیں اپنے مادری زبان و اپنے تاریخی کتابوں تک رسائی ہیں ہے۔
ہاں یقینا اسلامی شدت پسندی کی آڑ میں پاکستان نے اپنے پراکسی تنظیموں کی وجہ سے ہندوستانی کشمیر میں جو ماحوال پیدا کیا اس سے وہاں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ہندوستانی کشمیر میں اپنی پراکسی وار لڑنے کے لئے ریاستی عوام کو ایندھن بنانے کا فیصلہ کرنے کے بعد ضیائے الحق کے دور میں بننے والے پاکستانی فوج کے“کشمیر لانچنگ پیڈ”کے قیام کے بعد لبریشن فرنٹ اور بعد ازاں جماعت اسلامی و دیگر کو استعمال کرتے ہوے“جہادِ کشمیر”کا ایک منظم کاروبار شروع کیا گیا یعنی وادی کو قتل گاہ بنانے والے کرداروں کا تجزیہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان نے مذکورہ جماعتوں کے زریعے وادی میں موت کا اسٹیج تیار کیا اور پھر ہندوستان نے گولیاں چلائیں ایک نہ رْکنے والا سلسلہ چل نکلا۔
گلگت بلتستان تو 1947 سے ہی نام نہاد آزادکشمیر سے الگ رکھا گیا تھا اب لانچنگ پیڈ بنانے کے مقاصد میں سے ایک مقصدیہ بھی تھا کہ پاکستانی مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کی اسطرح سے ذہن سازی کی جاے تاکہ انہیں“مقبوضہ”صرف وادیِ کشمیر ہی لگے۔
جماعت اسلامی کے اْس وقت کے پاکستانی امیر قاضی حسین احمد نے پہلی دفعہ 5 فروری 1990 کو“یومِ یکجہتیِ کشمیر“ مناتے ہوے پاکستانی حکومت سے اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا مطالبہ کیا جو کہ 1991 سے سرکاری سطح پر ہر سال پانچ فروری یہ کہتے ہوے منایا جا رہا ہے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں۔
یہاں نام نہاد آزادکشمیر میں پاکستانی جماعتیں یہ کہتے ہوے مناتی ہیں کہ ہم سری نگر کے لوگوں سے یکجہتی کرتے ہیں۔ یعنی منافقت در منافقت،پاکستان نے سرینگر کو قربان گاہ بنایا ہوا ہے،
غلام قومیں اپنے قابضین کے خلاف قومی آزادی کے لئے جدوجہد کرتی ہیں اپنی ہی ذات کے ساتھ یکجہتیوں کا ڈھونک نہیں رچاتیں۔ یکجہتی کے نام پر پاکستان اپنے کاسہ لیسوں کی مدد سے اپنا منافقانہ چہرہ چھپانے کی ناکام کوشش تو کر رہا ہے، یکجہتی کے ڈرامے کے زریعے قابض ریاست عوام کو آج تک یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ساری ریاست غلام نہیں صرف ہندوستانی زیر قبضہ علاقہ غلام ہے۔ مگر کوئی پوچھے کہ پاکستان زیر قبضہ علاقوں میں پاکستان کے خلاف کسی طرح کی تحریر و تقریر جْرم کیوں ے اپنے حقوق و اختیار کی بات کرنے پر اے ٹی اے، نیشنل ایکشن پلان، شیڈیول فورتھ فورا حرکت میں کیوں؟ حالانکہ یہاں تو کوئی بندوق بردار جماعت بھی نہیں ہے مگر پھر بھی گولی و جیلیں لیکن پاکستان کو قابض کہیں تو سری نگر کے جنازے نکال کر دکھانے والے ناسمجھ لوگ نہ صرف سہولتکاری کا کام کر رہے ہیں بلکہ اس بے بنیاد اور غیر حقیقی تجزیے کہ ریاست پر صرف ہندوستان قابض ہے کو پھیلا کر عوام کو بے وقوف بنانے و عوام کو بے راہ روی کا شکار کرنے میں قابض قوتوں کے مددگار بھی بن رہے ہیں۔
پاکستان ایک طرف خود ریاست جموں کشمیر پرقابض ہے،ریاست جموں کشمیر میں مذہبی منافرت کے ساتھ ساتھ ریاستی سرحدوں پر آگ و خون کی ہولی کھیلنا ایسا معمول بنا ہوا ہے کہ سرحدی علاقوں کے شہری اب تنگ آ کر اپنی جان بچانے کے لئے بنکرز کی مانگ کر رہے ہیں۔ اس قبضے و منافقت کے ساتھ ساتھے کجہتی کیسی؟
قابض قوتیں محکوم قوموں کے ساتھ یکجہتی نہیں بناتے بلکہ اپنے قبضے کی طوالت کے لیے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں اور ے یہ یکجہتی کا ڈرامہ اْن ہتکھنڈوں میں سے ایک ہے۔ ریاستی عوام کو اپنی ہی ذات کے ساتھ یکجہتی کے ڈرامے کا انوکھا اور گھٹیا کردار نبھانے کی بجائے باشعور قوموں کی طرح اپنی آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔