اسلام باد: جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کے وزیر اعظم نے ان سے ملاقات نہیں کی تو ڈی چوک پر دھرنا دیں گے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور دیگر لواحقین نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کیا۔ اس موقع پر نصر اللہ بلوچ نے آئندہ کے لائحہ عمل اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ لوگوں کے توسط سے وزیراعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہم سے ملاقات کرکے ہمیں ہمارے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کی یقین دھانی کرائے ہم نے چیرمین سینٹ سے گزارش کی تھی کہ وہ وزیراعظم سے ہمارے لیے ملاقات کے لیے ٹائم لے لیکن چار دن گزرنے کے باوجود ہمیں جواب نہیں ملا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کل بروز منگل 16 فروری 2021 کو ہم لواحقین ریلی کی صورت میں اسلام آباد پریس کلب سے لے کر ڈی چوک تک جائیں گے اور اگر وزیر اعظم ہمیں ملاقات کے لیے ٹائم نہیں دیں گے تو ہم ڈی چوک پر دھرنا دے کر بیٹھے گے۔ انہوں نے کہا لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے لاپتہ پیاروں کی طویل جبری گمشدگی کی وجہ سے شدید ذہینی اذیت میں مبتلا ہے اسلیے وہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تکلیف برداشت کرکے اس امید پر اسلام آباد آکر احتجاج کررہے ہیں تاکہ ملک کی دارلحکومت میں کوئی انکی فریاد کو سنے اور انہیں ملکی قوانین کے مطابق انصاف فراہم کرے۔
انہوں نے بتایا بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لاپتہ افراد کے اہلخانہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیرے اہتمام گزشتہ پانچ دنوں سے نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔احتجاج میں حصہ لینے والوں میں لاپتہ علی اصغر بنگلزئی کے اہلخانہ، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، بی ایس او آزاد کے لاپتہ رہنماء شبیر بلوچ کی ہمشیرہ، لاپتہ ذاکر مجید کی والدہ، لاپتہ حسان قمبرانی کی ہمشیرہ،لاپتہ حزب اللہ قمبرانی کی والدہ، لاپتہ جہانزیب کی والدہ، لاپتہ راشد حسین کی والدہ اور کراچی سے جبری طور پر لاپتہ نسیم بلوچ،لاپتہ سعیداحمد شاہوانی کی والدہ اور لاپتہ مہرگل مری کی بیٹی سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین شامل ہیں۔
انہوں نے حکومتی نمائندگان اور بلوچستان کے پارلیمانی نمائندگان کے لاپتہ افراد کی تحریک کے حوالے سے کردار پر پوچھے گئے سوال پر کہا ہم نے بلوچستان کے پارلیمانی نمائندگان سے درخواست کی کہ ہماری پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات کروائی جائے لیکن انہوں نے بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نمائندگان کو پاکستان کے وزیراعظم تک رسائی نہیں۔
سوال کے جواب پر کہا بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرنے چکے ہیں۔ڈیرہ بگٹی سے ہزاروں افراد اور بلوچستان کے حالات کی وجہ سے کوہلو سے تقریبا ڈھائی لاکھ افراد ہجرت کرکے سندھ کے مختلف شہروں میں چلے گئے ہیں۔ مکران کے دیہی علاقوں کی 80 فیصد آبادی اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرچکی ہے۔انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا ہم اس ملک کے شہری ہیں ہمارے آئینی حقوق ہیں بلوچستان کے مسئلے پر انگلی پاکستانی فوج پر اٹھتی ہے جب انصاف فراہم نہیں کیا جائے گا تو نفرت پھیلے گی جب لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوں گے تو ریاست کے مسائل بڑھیں گے۔
انہوں نے حیات، برمش اور کریمہ کے ساتھ جو ہوا ہے یہ وہ چیزیں جس سے نفرت بڑھتی ہے۔ اب ہم یہاں آئے ہیں تو بلوچستان کی نظریں ہم پر ہیں وہاں لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ شہر اقتدار کا کیا سلوک ہوتا ہے۔