میانمار کی فوج نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد نیویارک میں امریکی فیڈرل ریزرو بینک سے اپنے ملک کے ایک ارب ڈالر کے اثاثے نکالنے کی کوشش کی ہے جسے امریکی حکام نے ان کے فنڈ منجمد کر کے ناکام بنا دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق میانمار کے سینٹرل بینک کی طرف سے 4 فروری کو کی گئی ایک ٹرانزیکشن کو فیڈرل ریزرو بینک نے روکا ہے۔ اس کے بعد امریکی حکام نے اس ٹرانزیکشن پر تب تک رکاوٹیں کھڑی کیں جب تک امریکی صدر جو بائیڈن کا صدارتی حکم نامہ نہیں آ گیا، جس کے بعد انہیں اس ٹرانزیکشن کو روکنے کا قانونی اختیار مل گیا۔
نیویارک میں فیڈرل ریزرو بینک کے ترجمان نے مخصوص اکاونٹ ہولڈر کے بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے بھی اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
اثاثے نکالنے کی میانمار کی فوجی حکومت کی یہ کوشش، جسے اس سے پہلے کہیں رپورٹ نہیں کیا گیا تھا، ملک میں مارشل لا حکومت کے قیام کے دوران کی گئی، جب فوجی حکومت کی جانب سے سینٹرل بینک کا نیا گورنر تعینات کیا گیا اور اصلاحات کے حامی کئی حکام کو مارشل لا کے دوران قید کیا گیا۔
مبصرین کے مطابق یہ میانمار میں فوج کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد لگنے والی ممکنہ بین الاقوامی پابندیوں کے اثر کو کم کرنے کی کوشش تھی۔
واضح رہے کہ میانمار کی حکومت نے رواں برس فروری میں ملک میں فوجی حکومت کا کا نفاذ کر دیا گیا تھا اور پچھلے برس نومبر میں ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والی انگ سانگ سوچی اور دیگر منتخب حکام کو قید کر لیا تھا۔ فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے پچھلے برس ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر فراڈ کا الزام لگایا تھا جسے ملک کا الیکشن کمیشن پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق فوج کے ترجمان سے اس بارے میں تبصرہ لینے کے لیے مسلسل فون کئے گئے، جنہیں انہوں نے وصول نہیں کیا۔ رائٹرز کے مطابق ملک کے سینٹرل بینک کے حکام سے بھی رابطہ نہیں ہو سکا۔
میانمار میں فوجی حکومت اور اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر فوج کی جانب سے کریک ڈاون کے بعد، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، امریکہ، کینیڈا، یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے میانمار پر نئے سرے سے پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق جمعرات تک ملک میں فوجی حکومت کے نفاذ کے بعد ہونے والے مظاہروں میں اب تک 54 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 17 سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جن میں 29 صحافی بھی شامل ہیں۔
فروری کی 10 تاریخ کو فوجی جرنیلوں اور ان کے کاروباروں پر پابندیاں عائد کرنے کا صدارتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا تھا کہ میانمار کے جرنیلوں کی جانب سے میانمار حکومت کے ایک ارب ڈالر اثاثوں تک نامناسب رسائی حاصل کرنے کی کوششوں کو امریکہ نے ناکام بنا دیا ہے۔
اس وقت امریکی حکام نے صدارتی حکم نامے کی تفصیلات جاری نہیں کی تھیں اور اس کے اگلے روز ایک صدارتی حکم نامے میں خصوصی طور پر میانمار کے سینٹرل بینک کو میانمار کی حکومت کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اس حکم نامے میں فوجی حکومت کے بعد ملک کے اثاثوں کو ضبط کرنے کی بات کی گئی تھی۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے دو ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ صدارتی حکم نامہ اس لیے جاری کیا گیا تھا کہ نیویارک کے وفاقی ریزرو بینک کو یہ قانونی اختیار دیا جائے کہ وہ غیر معینہ مدت کے لیے میانمار کے ایک ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر سکے۔