پاکستانی مقبوضہ کشمیر باغ کے علاقے دھیرکوٹ میں پاکستانی فوجی کی جانب سے معصوم بچے کے ساتھ جنسی ذیادتی کوئی پہلا واقع نہیں ہے اور نہ ہی آخری واقع ہے۔تاریخی طور پر اخلاقی گراوٹ کا شکار پاکستانی فوج کا بنگلہ دیش میں یہی ریپ اسٹ کردار رہا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ اس بدکردار فوج کی پتلونیں بنگلہ دیش میں اس وقت اتاری گئیں جب بنگلہ دیشی متحد و نظم ہوئے۔
بلوچستان میں پاکستانی قابض فوج کا یہی کردار رہا ہے بلوچستان میں اسی کردار کی وجہ سے بلوچ قوم نے ان کے خلاف منظم لڑائی کا آغاز کیا اور آج بلوچ قوم آزادی کے دھانے پر ہے اور یہ بدکردار اخلاقی قدروں میں گراوٹ کا شکار فوج بلوچستان میں توسیع پسندی کی جنگ ہار چکی ہے۔
پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بچوں اور خواتین کے ساتھ ریپ روز کا معمول ہے بالخصوص باڈر ایریاز میں ایسے واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں لیکن ایسے کیس نوٹس میں نہیں آتے منظر عام پر نہیں آتے کیونکہ یہاں ابھی لوگوں کو قابض فوج سے خوف ہے اور خوف کے ساتھ ساتھ فوج ایسے واقعات کو چھپا لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
دھیرکوٹ بچے کے ساتھ فوجی اس وقت ریپ کر رہا تھا جب پاکستانی فوج کے بارئے میں یہ قانون بنایا جا رہا ہے کہ فوج کے خلاف کوئی بھی فرد بات کرئے گا تو اسے سزا دی جائی گی۔یعنی فوجیوں کو معصوم لوگوں کی عزتوں یا کھلواڑ کرنے کا قانونی حق دیا جا رہا ہے۔
معصوم بچے کے ساتھ ریپ کرنے والے فوجی کو پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے مقامی لوگوں سے فوجی آ کر چھڑا کر لے گئے اور بعد ازاں کوائلہ پار بھیج دیا گیا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بدکردار فوجی کو پکڑا ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کہ کیس چلایا جا رہا ہے کہ انھوں نے ایک فوجی کو بچے کے ساتھ ریپ کرنے کے جرم میں تشدد کا نشانہ بنایا۔
یعنی قابض فوجی ہمارئے بچوں کا ریپ بھی کریں اور کیس بھی ہمارئے لوگوں کے اوپر بنائے جائیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے خیر قابض فوج کے خلاف غلام و مفتوع علاقوں میں کون سی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔ایک ہی حل ہے اور وہ ہے قابض فوج کے خلاف مزمتی تحریک جس کی بنیادیں ایسے واقعات کے رونمے ہونے سے ہی پڑتی ہیں۔بحثیت غلام قوم ہمیں قابض فوج کے بنگلہ دیش سے لیکر بلوچستان تک کے کردار کا تجزیہ کرنا چاہیے اور اس بے لگام فاشیسٹ بدکردار فوج کے خلاف مزمتی تحریک کی بنیادیں ڈالنا چاہیے موجودہ وقت میں ہمارا یہی فریضہ بنتا ہے۔