امریکہ کے سابق چوٹی کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے کہا ہے افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے فیصلے پر پچھتانا پڑ سکتا ہے کیونکہ وہاں،ان کے بقول، ایک بار پھر خانہ جنگی لوٹ سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق امریکی جنرل نے کہا ہے کہ امریکہ کے خصوصی مندوب برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کی بہترین سفارتی کوششوں اور دیگر متعدد اقدامات کے باوجود افغانستان میں انتہا پسندی بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔
جنرل ڈیوڈ ایچ پیٹریاس ماضی میں افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی کمان سنبھال چکے ہیں اور امریکہ کی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔
انہوں نے افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کے کانگریس کی کمیٹی کے سامنے شہادت میں بیان کی گئی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ زلمے خلیل زاد کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے قائل ہیں اور ان کے ساتھ عراق میں کام کر چکے ہیں۔ لیکن جنرل پیٹریاس کا کہنا تھا کہ ایسی کوششوں کے باوجود خدشہ ہے کہ افغانستان میں انتہا پسند گروپ اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنا سکتے ہیں۔
گزشتہ پیر کو افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی، زلمے خلیل زاد نے امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنی ایک شہادت میں کہا تھا کہ ایسی پیش گوئیاں غیر ضروری طور پر منفی ہیں کہ جب امریکی اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی تو طالبان جلد ہی افغان سیکیورٹی فورسز کو شکست دے کر کابل پر قبضہ کر لیں گے۔
جنرل پیٹریاس نے افغان سروس کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان کسی بامقصد، قابل توثیق اور پائیدار معاہدے کے لیے سنجیدہ ہیں، جو شراکت اقتدار کے کسی بندوبست کی طرف لے جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے، جو وہ مذاکرات سے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے راہنماؤں اور اپنے جنگجوؤں کو جیلوں سے رہا کرا لیا ہے اور اب وہ امریکہ کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارے اتحادی بھی افغانستان چھوڑ جائیں گے۔
ان کے بقول، سیکیورٹی کا ایک فقدان ہو گا جس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کئی لوگ اپنے تحفظ کی ذمہ داری اپنے قبیلوں، نسلی گروہوں اور مذہبی وابستگیوں پر چھوڑ دیں گے۔ اور آپ ایک بار پھر افغانستان میں ایک خانہ جنگی کی سی صورتحال دیکھ سکتے ہیں۔
افغان فورسز کی اہلیت کار کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے جنرل پیٹریاس نے کہا کہ وہ اپنے ملک کے لیے جان دینے والوں کے جذبے کو سراہتے ہیں، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغان سیکیورٹی فورسز پر ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ ان کو اہم انفراسٹرکچر، شہری آبادیوں، ضلعی مراکز، صوبائی دارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ مواصلات و ترسیل کے نظام کو بھی سیکیورٹی دینی ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کو بڑی تعداد میں تعیناتیوں کی ضرورت ہو گی جبکہ وہاں سپشل فورسز کی تعداد تیس سے چالیس ہزار ہے۔ جب کہ طالبان کو اپنی کارروائیوں کے لیے صرف چند افراد کی ضرورت ہے۔
جنرل پیٹریاس نے کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ امریکی کمانڈر، انٹیلی جنس کے آفیسرز اور دیگر عہدیدار القاعدہ اور داعش اور دیگر ایسے انتہا پسند گروپوں کی طرف سے افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنانے کے خطرات کا جائزہ لینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، جہاں سے وہ ہمارے اتحادی یورپی ممالک میں دہشت گردی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول ایک بار اگر افغانستان کو چھوڑ دیا تو آپ افغانستان میں اپنا آخری اڈہ بھی چھوڑ جائیں گے۔
سابق جنرل پیٹریاس نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے اندر بھی امریکہ کے پاس فوجی اڈہ بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے بقول، پاکستان کہہ چکا ہے کہ وہ امریکہ کو اجازت نہیں دے گا کہ وہ یہاں دوبارہ اپنے اڈے بنائے۔ یہ ابھی سوال ہے کہ آیا ہم ازبکستان کا خان آباد فوجی اڈہ حاصل کر سکتے ہیں، جہاں پہلے کبھی ہمارے پاس فوجی اڈہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں سے پرواز تھوڑی لمبی ہو گی۔ بہرحال اس صورت میں بھی اپنے افغان اتحادیوں کی مدد اور افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں وسائل اور عددی قوت کی ضرورت ہو گی۔
جنرل پیٹریاس نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ افغانستان میں امریکی فوج کے آلات، ہتھیار اور ان تنصیبات کو، جو دشمن کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں، انہیں ناکارہ بنا دیا جائے یا اگر ایسی چیزیں انخلا کے وقت ساتھ نہیں لے جائی جا سکتیں تو ان کو تلف کر دیا جائے
جنرل پیٹریس نے امید ظاہر کی کہ امریکہ کی فوج، انٹیلی جنس کے ادارے اور سفارت کار اور ترقیاتی کاموں میں مصروف عملہ کوشش کرے گا کہ افغانستان میں جو سامان ان کے پاس ہے ان میں سے کچھ جو کارآمد ہے واپس وطن لے کر آئیں اور یقین دہانی کریں کہ باقی بچ جانے والا سامان دشمن کے ہاتھ نہ لگ پائے۔