بی بی سی اردونے اپنے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی فضائیہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ بلوچستان میں ایک نیا فضائی اڈہ (ایئر بیس) بنانے پر غور کر رہی ہے جبکہ ضلع نصیر آباد کے ڈپٹی کمشنر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ایئرفورس نے اس سلسلے میں اراضی کے حصول کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد انھیں نصیر آباد کے علاقے نوتال میں اراضی کا معائنہ کرایا گیا ہے۔
یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون کے ایک عہدیدار ڈیوڈ ایف ہیلوے نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں موجود اپنی افواج کی سپورٹ کے لیے اپنی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ کے انڈو پیسیفک افیئرز کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈیوڈ ایف ہیلوی نے گذشتہ ہفتے امریکہ کی سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کو مزید بتایا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا کیونکہ پاکستان کا افغانستان میں امن بحالی میں بڑا اہم کردار ہے۔
ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ضلع نصیر آباد میں تعمیر کیا جانے والا ایئر بیس درحقیقت امریکن فورسز کی درخواست پر بنایا جا رہا ہے اور یہ کہ یہ ایئر بیس امریکہ کے زیر استعمال ہو گا۔ تاہم ترجمان پاکستان فضائیہ اور وزارت خارجہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نوعیت کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
فضائیہ کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں نیا فضائی اڈہ بنانے کی تجویز ایک معمول کی چیز ہے اور اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ فی الحال نہیں ہوا ہے۔ ترجمان کے مطابق ابھی اس فضائی اڈے کے لیے چار سائٹس (جگہیں) زیر غور ہیں مگر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی وزارت خارجہ نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں نہ تو امریکن افواج ہیں اور نہ ہی کوئی ایئر بیس اور نہ ہی کوئی ایسی تجویز زیر غور ہے۔ ‘اس حوالے سے کی جانے والی تمام قیاس آرائیاں بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں جن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (امریکہ کے ساتھ پاکستان کا) فضائی اور زمینی تعاون 2001 سے جاری ہے۔’
اے ایف پی کے مطابق امریکی عہدیدار کا ایک سوال کے جواب میں مزید کہنا تھا کہ ‘پاکستان نے افغانستان میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں امن بحالی منصوبے میں مدد فراہم کی ہے اور پاکستان نے امریکہ کو فضائی سروس استعمال کر کے افغانستان تک اپنی افواج کے لیے مدد پہنچانے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔’
نوتال بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے ہیڈکوارٹرز ڈیرہ مراد جمالی سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نوتال ایک چٹیل میدانی علاقہ ہے اور اس کا بڑا حصہ زرخیز نہیں ہے۔
بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ضلع نصیر آباد کے بعض علاقے شورش سے متاثر رہے ہیں۔
پاکستان فضائیہ کے ترجمان نے کہا کہ میڈیا پر چلنے والی یہ خبریں بے بنیاد اور محض افواہ ہیں کہ یہ ایئر بیس امریکہ کے لیے بنایا جا رہا ہے یا ان کے حوالے کیا جائے گا۔
ترجمان کے مطابق اگر فضائی اڈے پر کام شروع ہوا تو یہ راتوں رات تعمیر نہیں ہو جائے گا بلکہ حتمی فیصلے اور منظوری کے بعد اس کو مکمل ہونے میں آٹھ سے دس سال کا عرصہ لگ جائے گا۔
نصیر آباد کے ڈپٹی کمشنر نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ تجویزایک نئے ایئر بیس کے لیے نہیں بلکہ ایک آپریشنل سائٹ کے لیے سامنے آئی ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ان کے علم کے مطابق ‘ابھی اس زمین پر پاکستان کی فضائیہ نے کوئی کالونی بنانی ہے، کوئی آپریشنل سائٹ بنانا ہے یا کوئی کنسٹرکشن کرنی ہے لیکن یہ کوئی بڑا ایئر بیس نہیں ہوگا۔’
انھوں نے کہا کہ ‘ہم نے پاکستان فضائیہ کو خوش آمدید کہا ہے کہ وہ آئیں کیونکہ اس سے علاقے میں ترقی اور خوشحالی آئے گی۔’
واضح رہے کہ اس سائٹ کا دورہ پاکستان ایئرفورس کے حکام نے رواں مہینے کے اوائل میں کیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے فوج کی طرف سے اب امریکہ کو کوئی ایئر بیس نہیں دیا جائے گا۔
ان کے مطابق اس وقت نصیر آباد میں کوئی ایسی فیسیلیٹی نہیں ہے اور اس ائیر بیس کی سی پیک کے نکتہ نگاہ سے بھی اہمیت ہے۔ ان کے مطابق سی پیک کے خلاف اگر کوئی سازش ہوتی ہے تو پھر اس ائیربیس سے کسی بھی منفی سرگرمی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
امجد شعیب کے مطابق یہ ایئربیس زیادہ بڑا نہیں ہو گا کیونکہ اس کا مقصد جنوبی حصے میں امن برقرار رکھنا ہو گا۔
ان کے مطابق اگر ضرورت ہو گی تو امریکہ کو چمن تک کی سڑک سے رسائی دی جا سکتی ہے اور وہ پہلے سے ہی اس سڑک کو استعمال کر رہا ہے۔
ان کے مطابق اگر امریکی فوجیوں کو سپلائی کی ضرورت ہو گی تو وہ کراچی ایئرپورٹ سے لے جا سکیں گے۔ تاہم ان کے مطابق ابھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد یہ ضرورت بہت کم ہو گئی ہے۔
نصیر آباد ائیر بیس سے متعلق بات کرتے ہوئے جنرل امجد شیعب نے کہا کہ اس وقت کسی بھی دہشتگردی کا قلع قمع کرنے کے لیے ہمارا رسپانس ٹائم بہت زیادہ ہے۔ ‘ہمیں ابھی کوئٹہ سے ردعمل دینا پڑتا ہے۔ جیکب آباد والا ایئربیس بھی اتنا قریب نہیں پڑتا۔’
ان کے مطابق جیکب آباد ایئربیس اگرچہ تھوڑا دور ہے مگر انڈین سرحد کے تناظر میں اس کی اپنی ایک جداگانہ اہمیت ہے۔
انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبون کے ساتھ منسلک دفاعی امور پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی کامران یوسف نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی امریکہ خطے میں کسی نہ کسی صورت اپنی موجودگی برقرار رکھے گا اور یہی خواہش پاکستانی عسکری حکام کی بھی ہے۔
کامران یوسف کے مطابق عسکری قیادت یہ سمجھتی ہے کہ جب خطے میں امریکی موجودگی رہے گی تو پاکستان کو بھی ایک سبقت حاصل رہے گی کیونکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔
ان کے مطابق تاریخی طور پر بھی پاکستان امریکہ کو اس قسم کی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ تاہم ان کے مطابق عوامی مخالفت سے بچنے کے لیے ایسے معاہدوں کے بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں بتایا جاتا۔
ان کے مطابق خفیہ طور پر اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ دونوں ممالک ایسا معاہدے کریں کہ جس میں اس قسم کا تعاون جاری رکھا جا سکے۔
ان کے مطابق 9/11 کے بعد پرویز مشرف نے کور کمانڈرز کے اجلاس میں نیوٹرل رہنے کا کہا تھا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ شمسی ائیربیس پہلے سے ہی امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ کور کمانڈر رہنے والے شاہد عزیز نے اپنی کتاب ‘یہ خاموشی کہاں تک’ میں انکشاف کیا تھا کہ پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف کور کمانڈرز کے اجلاس میں کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کے معاملے میں نیوٹرل رہے گا مگر یہ بات کمانڈرز کو بھی بعد میں پتا چلی کہ شمسی ائیر بیس پہلے سے ہی امریکہ کے حوالے کیا جا چکا تھا۔
کامران یوسف کے مطابق جب ماضی میں ایوب خان نے سویت یونین کے خلاف امریکہ کو پشاور کا فضائی اڈہ آفر کیا تھا تو اس وقت صوررتحال قدرے مختلف تھی مگر اب ایسے تعاون سے قبل چین کے عنصر کو بھی پاکستان نظر انداز نہیں کر سکتا اور یقیناً پاکستانی حکام نے چین کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں ضرور لیا ہو گا۔
جیکب آباد سندھ کا بلوچستان سے متصل سرحدی ضلع ہے اور نصیر آباد سے متصل بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کی جنوب مشرق میں سرحدیں جیکب آباد سے لگتی ہیں۔ شہباز ایئر بیس جیکب آباد میں پاکستان ایئرفورس کا ایک بڑا ایئر بیس ہے۔ نوتال سندھ جیکب آباد سے اندازاً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جیکب آباد کا ایئربیس افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف فوجی کارروائیوں کے لیے امریکی فضائیہ کے زیر استعمال رہا ہے۔
جیکب آباد کی طرح افغانستان نوتال کے بھی شمال میں واقع ہے۔ جیکب آباد اور نوتال کے جنوب یا جنوب مغربی علاقوں میں پاکستان کے سرحد سے متصل افغانستان کے علاقے یا ان سے جڑے دوسرے علاقے بھی شورش سے سب سے زیادہ متاثرہیں۔
جہاں جیکب آباد کا ایئر بیس نوتال کے بالکل قریب واقع ہے وہاں نوتال کے قریب ضلع سبی میں بھی ایک ہوائی اڈہ موجود ہے۔ انگریزوں کے دور میں بنا یہ ہوائی اڈہ اگرچہ بہت بڑا اور جدید نہیں ہے تاہم سی ون تھرٹی طیاروں کے علاوہ یہ چھوٹے طیاروں کے استعمال میں رہتا ہے۔
بلوچستان کے افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ چھ اضلاع واقع ہیں، جن میں ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، قلعہ عبد اللہ، نوشکی اور چاغی شامل ہیں۔ یہ اضلاع انگریزوں کے دور میں برٹش بلوچستان کا حصہ تھے، جہاں انگریزوں نے نازی جرمنی اور سابق سوویت یونین کی کسی ممکنہ پیش قدمی کو روکنے کے لیے بہت سارے چھوٹے چھوٹے ایئر سٹرپس بنا رکھے تھے۔
تاہم قیام پاکستان کے بعد ژوب اور ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں ہوائی اڈے تعمیر کیے گئے۔
ان علاقوں میں کسی ایئرپورٹ کی اعلانیہ طور پرافغانستان میں حملوں کے لیے امریکی استعمال کے حوالے سے خبریں سامنے نہیں آئیں تاہم ضلع چاغی سے متصل ضلع خاران میں شمسی ایئر بیس کے حوالے سے اعلانیہ طور پر کہا گیا تھا کہ یہ امریکی استعمال میں رہا ہے۔ تاہم سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد اس ایئر بیس کو امریکہ نے خالی کیا تھا۔
نوتال میں فضائیہ کے اس نئے منصوبے کی بلوچستان کے مقامی اخبارات میں زیادہ تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس سلسلے میں تاحال بہت زیادہ رد عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل موومنٹ نے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔
پارٹی کے سربراہ خلیل بلوچ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اسے بلوچستان میں بڑا عسکری منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاست اور اس کے عسکری ادارے بلوچستان میں اپنے قبضے کو طول دینے اور بلوچ وطن کو ایک مکمل فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کی پالیسی پر تیزی سے عمل درآمد کر رہے ہیں۔