برمش بلوچ کا نام ذہن میں آتے ہی پاکستانی فوج اور اسکی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کا مکروہ چہرہ بنگلہ دیش میں کیے گئے اس فوج اور الشمس و البدرکی جنگی جرائم کی نئی شکل مقبوضہ بلوچستان میں سامنے آتا ہے۔
انصاف کے انتظار میں برمش بلوچ نے ایک سال پلک جھپکتے ہی گزار ڈالا۔
برمش بلوچ ایک ننھی سی بچی جسے سال2020 میں آج ہی کے روز26 مئی کو پاکستانی فوج کے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے دوران ڈکیتی اس کے گھر میں گھس کر زخمی کیا اور مزاحمت پر اس کے ماں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
ایک سال گزرنے کے بعد بھی برمش بلوچ کو انصاف نہ مل سکی،یا یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ بلوچ قوم کے نصیب میں انصاف اس وقت تک نہیں جب تک وہ غلام ہے۔
مقبوضہ بلوچستان میں ایسے واقعات آئے روز ہوتے ہیں،مگر کچھ واقعات جو بر وقت سوشل میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں،انکی تصاویر یا ویڈیوز سامنے آتے ہیں تو وہ وائرل ہوجاتی ہیں۔
حیات بلوچ کی دل ہلا دینے والی تصویر وں نے خدا کو بھی ایک لمحے کے لیے جھنجوڑ دیا ہو گا،جب پاکستانی فوج نے ہونہارطالب علم حیات بلوچ کے سینے میں ان کی ماں اور باپ کے آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگرے8 گولیاں اتار دیں۔اور اس موقع پر اللہ سے شکوہ کناں ماں نے لرزتی ہاتھوں، بہتی آنکھوں اور بوجھل دل کے ساتھ خون میں لپٹے اپنے بیٹے کے سر کو گھود میں رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھا کر عرش کو لرزا دیا لیکن ریاستی فوج کے مظالم میں کمی نہیں آئی۔
اسی طرح برمش واقعہ کے کچھ روز بعد بی بی کلثوم کو انکے بچوں کے سامنے پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ نے شہید کر دیا۔
چار سالہ ننھی برمش اب ۵ سال کی ہو گئی ہے،جب برمش کی ماں کو پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ نے قتل کیا تواس بچی کے ذہن پر کیا نقوش مرتب ہوئے ہونگے۔؟
پتہ نہیں اس ننھی بچی کو یہ سب لمحات کیسے یاد ہیں،یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر یہ ضرور ہے کہ برمش بڑی ہو کر بلوچ قوم کے لیے ایک کریمہ بن جائے گی۔
برمش کو انصاف نہیں مل سکا،مقبوضہ بلوچستان میں انصاف کسی کو بھی اُس وقت تک نہیں ملے گی جب تک بلوچ اپنی سرزمین کے مالک خود نہیں ہونگے۔
برمش کی ماں کے قاتل بلکہ سینکڑوں بلوچ بچوں کو یتیم بنانے والے آج پاکستانی آرمی کیمپوں،آئی ایس آئی کے پروٹوکول میں عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
برمش نے انصاف کے انتظار میں ایک سال کو الوداع کر دیا۔ اس کیس میں سمیر نامی شخص جو مرکزی ملزم تھا اسے بری کردیا گیا جبکہ دوکو سزائیں دی گئیں۔اگرچہ عدالت نے مرکزی ملزم کو بری کردیا لیکن برمش یہ نہیں بھولی کہ بلوچ کا خون اپنے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کرتی ہے۔
برمش نے کریمہ بلوچ کے ساتھ وفا نبھایا،جب برمش زخمی تھی تو کریمہ بلوچ نے کینیڈا کے سڑکوں پر انصاف کے لیے احتجاج کر رہی تھی۔جب کریمہ بلوچ کو بدنام زمانہ آئی ایس آئی نے کینیڈا میں شہید کیا تو ننھی برمش اپنا غم بھول گئی اور تربت کے شہید فدا چوک پر پہنچ گئی اور دشمن کوللکارا کہا کہ کریمہ میری صورت میں زندہ ہے اور مزاحمت کبھی نہیں مر سکتی ہے۔
یقینا برمش اس سفر کو جاری رکھے گی۔
برمش بھی کریمہ بلوچ کی طرح مزاحمت کا سمبل بن چکی ہے، بے شک ابھی وہ اس سے بے خبر ہے مگر تاریخ خود کو دہراتی ہے اور برمش ایک دن خود کو اور بلوچ قوم کو انصاف دلائے گی۔
پشتون تحفظ موؤمنٹ کے مرکزی رہنما محسن داوڈ نے اپنی پیدا ہونے والی بچی کا نام بھی برمش رکھا۔
برمش بلوچی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی آہٹ کے ہیں۔۔۔۔اور یہ آہٹ دشمن کے کانوں میں تب تک بجتی رہے گی جب برمش بڑی ہوکر بلوچوں کے دشمن کو چھین سے بیٹھنے نہیں دے گی۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے سربراہ بی بی گل بلوچ کا اس پروگرام میں خصوصی گفتگو
مزید تفصیل دیکھنے کے لیے ویڈیو لنک پر کلک کریں