کشمیر کے شمال مغربی شہر سوپور میں ہفتے کو پاکستان نواز مذہبی شدت پسندوں کے حملے میں دو پولیس اہلکار اور دو عام شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ جب کہ دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد زخمی ہوئے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق سرینگر سے 48 کلو میٹر دور سوپور کے آرم پورہ علاقے میں حملے کے بعد شدت پسند بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔پولیس اور نیم فوجی دستوں نے فوج کی مدد کے ساتھ سوپور کے ایک وسیع علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی۔ آخری اطلاعات ملنے تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔
ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ سرچ آپریشن میں حفاظتی دستوں کو حملہ آور شدت پسندوں کو سرنڈر نہ کرنے کی صورت میں ہلاک کرنے کا اختیار دیا جا چکا ہے۔
کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ سے ہے اور ان کی شناخت کر لی گئی ہے۔
تاہم انہوں نے حملہ آوروں کے نام ظاہر کرنے یا اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتانے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپریشن سے جڑے معاملات ہیں جنہیں ابھی نہیں بتایا جا سکتا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
حکام نے کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو ایک تنگ و تاریک گلی سے اچانک نمودار ہونے والے مسلح افراد نے نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ پولیس اہلکار سوپور میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے نافذ ویک اینڈ لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کے لیے تعینات تھے۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ حملے میں چار پولیس اہلکاروں اور قریب سے گزرنے والے تین عام شہریوں کو گولیاں لگیں۔ انہیں فوری طور پر قریبی اسپتال لے جایا گیا جہاں دو پولیس اہلکار شوکت احمد اور وسیم احمد اور دو عام شہری منظور احمد شالہ اور بشیر احمد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
حملے میں شدید زخمی ہونے والے اسسٹنٹ سب انسپکٹر مکیش کمار کو علاج کے لیے سرینگرکے ایک بڑے اسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔