افغانستان: متعدد صحافی علاقے چھوڑ گئے

0
99

افغانستان میں جیسے جیسے طالبان پش قدمی کر رہے ہیں اور مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رہے ہیں ویسے ہی ملک میں دیگر شعبوں کی طرح میڈیا کی آزادی کا دائرہ بھی سکڑتا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کے لیے عائشہ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ طالبان جس دن ضلع بلخ میں داخل ہوئے اسی دن مقامی ریڈیو ‘نو بہار’ نے اپنے دفاتر بند کر دیے اور اس سے وابستہ کئی صحافی رو پوش ہو گئے۔

چند ہی روز بعد اس ریڈیو اسٹیشن نے دوبارہ نشریات شروع کیں لیکن اس کے پروگرامز کی نوعیت بدل گئی تھی۔ پہلے کے پروگراموں کی ترتیب کے برعکس اب یہ ریڈیو اسلامی نغمے چلا رہا تھا اور ایسے شوز پیش کر رہا تھا جو طالبان نے تیار کیے تھے۔

ریڈیو چینل ‘نو بہار’ کے اسٹیشن نے 2004 میں شمالی صوبے سے کام کرنا شروع کیا تھا جب اس نے دری اور فارسی زبانوں میں خبروں کے علاوہ لوگوں کے لیے تفریحی پروگرام شروع کیے تھے۔ ان پروگراموں کے لیے بین الاقوامی ترقی کا امریکی ادارہ فنڈز فراہم کرتا تھا۔

افغانستان میں جیسے جیسے سیکیورٹی کی صورتِ حال تنزلی کا شکار ہے، گزشتہ 20 برسوں میں دیگر شعبوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کا رخ بھی، بشمول میڈیا کی آزادی کے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔

رائٹرز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف جرنلزم کا کہنا ہے کہ طالبان کے دور میں میڈیا کی آزادی صفر تھی اور 20 برس قبل امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر ہونے والے حملے کے بعد سے اب تک 170 ریڈیو اسٹیشنز کا قیام، 100 کے قریب اخبارات اور متعدد ٹیلی ویژن چینلز نے کام شروع کیا تھا۔

اب جب کہ غیر ملکی فوجی تقریباً جا چکے ہیں، طالبان نے افغانستان کے اندر اپنے کنٹرول والے علاقے دو گنا بڑھا لیے ہیں۔ متعدد صحافی جو غیر محفوظ علاقوں میں کام کر رہے تھے اب اپنی حفاظت کے لیے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔

افغان جرنلسٹس سیفٹی کمیٹی کے صدر نجیب شریفی کے مطابق حالیہ ہفتوں میں 50 کے قریب صحافیوں کو اُن علاقوں سے مجبوراً نکلنا پڑا ہے جو نئے نئے طالبان کے کنٹرول میں آئے ہیں یا پھر وہ اپنی جان بچانے کے لیے ان علاقوں سے نکل آئے ہیں۔

ان کے بقول 20 سے زائد میڈیا اداروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے جب کہ دیگر طالبان کا ایجنڈا نشر کرنے پر مجبور ہیں۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں نجف شریفی نے کہا کہ ”ہمارے پاس تقریباً پانچ میڈیا اسٹیشنز ہیں، پرائیویٹ میڈیا چینلز جن پر طالبان نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور ان پانچ اسٹیشنوں کے ذریعے طالبان اپنا پروپیگنڈا نشر کرتے ہیں۔ انہوں نے موسیقی اور خواتین کی آواز بھی بند کرا دی ہے۔“

نجف شریفی نے کہا کہ بہت سے علاقوں میں طالبان بظاہر وہی روش اختیار کرتے نظر آتے ہیں جس پر وہ 90 کی دہائی میں عمل پیرا تھے، جب ملک پر ان کی حکومت تھی اور سخت گیر اسلامی قوانین نافذ تھے جن کے تحت خواتین کو عام زندگی میں کوئی جگہ نہیں تھی۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ کے ساتھ واٹس ایپ کال کے ذریعے گفتگو میں ان الزامات کی تردید کی ہے۔

سہیل شاہین کے بقول ”ہم نے صرف ان ریڈیو اسٹیشنز پر قبضہ کیا ہے جو کابل کی حکومت چلا رہی تھی کیوں کہ وہ حکومت کی ملکیت تھے، اور ہم نے حکومت کی جگہ لے لی ہے۔ لیکن نجی ریڈیو اسٹیشنز کو کام کرنے کی اجازت ہے اور ہم نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔“

ترجمان نے کہا کہ خواتین کو بھی نشریات کا حصہ بننے کی اجازت ہے اگر وہ اسکارف پہنتی ہیں۔ لیکن موسیقی ایک الگ معاملہ ہے۔

طالبان کی جانب سے تردید اور یقین دہانیوں کے باوجود مقامی صحافی علاقے چھوڑ رہے ہیں کیوں کہ وہاں شدت پسند پہنچ رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے مطابق ان کے چار رپورٹر بھی ان درجنوں صحافیوں میں شامل ہیں جو دارالحکومت کابل چلے گئے ہیں جسے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نسبتاً محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ان صحافیوں میں ایک لینا شیرزاد بھی ہیں جو صوبہ بدخشان کے دارلحکومت فیض آباد سے رپورٹنگ کرتی رہی ہیں۔

لینا شیرزاد کہتی ہیں کہ انہیں نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔

لینا کے بقول، ”انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں میڈیا میں کام نہ کروں لیکن میں نے کام جاری رکھا۔ مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ طالبان میرے آبائی قصبے کو اپنے گھیرے میں لے لیں گے اور میں بطور صحافی مزید کام نہیں کر سکوں گی۔”

لینا شیرزاد اس علاقے کو چھوڑ گئی ہیں لیکن وہ اپنے خاندان کے بارے میں پریشان ہیں جو اب تک وہیں مقیم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ”جب میں صورتِ حال معلوم کرنے کے لیے فون کرتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ حالات پہلے سے بدتر ہو گئے ہیں۔”

افغانستان کا شمار پہلے بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا تھا جو صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک خیال کیے جاتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے وابستہ پولٹرز پرائز جیتنے والے فوٹو گرافر دانش صدیقی گزشتہ ہفتے اس وقت مارے گئے تھے جب وہ افغانستان کی اسپیشل فورسز کے ہمراہ تھے اور وہ طالبان اور مقامی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی کوریج کر رہے تھے۔

صحافیوں کو نہ صرف جان کا خطرہ ہے بلکہ انہیں خبروں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ افغانستان میں صحافیوں کو ایک اور بھی پریشانی کا سامنا ہے اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی خبروں کا سیلاب ہے۔

نجف شریفی کے مطابق اس طرح کے پروپیگنڈے کا ایک بڑا حصہ طالبان کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے اور صحافیوں کے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکیں۔

افغانستان میں صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے ہی نہیں بلکہ صحافت کے مستقبل کے لیے بھی پریشان ہیں۔

لینا شیرزاد کہتی ہیں کہ اگر موجودہ صورت ِحال جاری رہتی ہے تو پھر آپ بدخشاں اور دیگر صوبوں میں صحافت اور آزادی صحافت کا جنازہ پڑھ لیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں