ایک چینی خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے دبئی میں چین کے ایک خفیہ حراستی مرکز میں آٹھ روز کے لیے رکھا گیا۔
اگر یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے، تو یہ چین کے بیرونی ملکوں میں خفیہ حراستی مراکز کا اولین ثبوت ہو سکتا ہے۔
چھبیس سالہ وو ہان کے منگیتر کو منحرف سمجھا جاتا ہے۔ چینی حکام کو حوالگی سے بچنے کے لیے وہ چھپ رہی تھی کہ اسے دبئی میں ایک ہوٹل سے پکڑ لیا گیا۔ وو ہان کا دعوی ہے کہ اسے چینی حکام نے آٹھ دنوں کے لیے ایک بنگلے میں قید رکھا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے اس نے یہ بھی بتایا کہ اس مقام پر کم از کم دو ایغور مسلم بھی قید تھے، جن کی وہ صرف آوازیں سن پائی۔ اس کا الزام ہے کہ اسے ڈرایا، دھمکایا گیا اور قانونی دستاویزات پر اس کے دستخط بھی لیے گئے، جن میں یہ الزام درج تھا کہ اس کا منگیتر اسے ہراساں کرتا ہے۔ وو ہان کے بقول اسے مطالبات پورے کرنے پر آٹھ جون کو رہا کیا گیا اور اب وہ ہالینڈ میں پناہ کی متلاشی ہے۔
چین میں ایسے حراستی مراکز یا ‘بلیک سائٹس‘ عام ہیں مگر چین سے باہر ایسے مقامات کی موجودگی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ اگر یہ الزام درست ہے، تو یہ اس کا ثبوت ہے کہ چین بین الاقوامی سطح پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے منحرف کارکنان، ایغور مسلمانوں اور کرپشن میں ملوث مشتبہ افراد کو نشانہ بنا رہا ہے اور انہیں وطن واپس لانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ‘بلیک سائٹس‘ ایسی غیر رسمی جیلوں کو کہا جاتا ہے، جن میں ملزمان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جاتا یا باقاعدہ الزام تک نہیں لگایا جاتا۔ ایسے مقامات پر قانونی تقاضوں کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا۔
خبر رساں ادارہ ایسوسی ایٹڈ پریس وو ہان کے الزامات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کر پائے اور نہ ہی وہ مبینہ حراستی مرکز کے مقام کی نشاندی کر پائی۔ البتہ رپورٹرز نے اس کے پاسپورٹ پر درج اسٹیمپس اور فون میں موجود ریکارڈنگز سنیں جو اس کے دعوے کو تقویت بخشتے ہیں۔ ریکارڈنگ میں کسی چینی اہلکار کو اس سے پوچھ گچھ کرتے سنا جا سکتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے اس کے الزامات کو رد کر دیا ہے۔ ترجمان نے پیر کو اس سلسلے میں باقاعدہ بیان جاری کیا جبکہ دبئی میں چینی قونصل خانے اس موضوع پر اپنا موقف دینے سے گریز کیا۔ دبئی پولیس اور وزارت خارجہ سے بھی اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر ان کی طرف سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
چین کے شمالی صوبے سنکیانگ میں قریب ایک ملین ایغور مسلم قید ہیں۔ چین انہیں تعلیمی مراکز قرار دیتا ہے اور وہاں ‘نا انصافیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ کی رپورٹوں کو بے بنیاد قرار دیتا آیا ہے۔ سینکڑوں ایغور مسلمانوں کے بیان کردہ حالات و واقعات چینی موقف کے برخلاف ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چینی حکومت نہ صرف ایغور بلکہ سیاسی ناقدین، کرپٹ سیاستدانوں اور منحرف کارکنان کو واپس چین لانے کا سلسلہ جاری رکھی ہوئی ہے۔