مقبو ضہ آزاد جموں کشمیر میں پاکستان کی نوآبادیاتی حکومت – نیوز انٹرونشن اسپیشل اسٹوری

0
200

پاکستان کے زیر قبضہ آزاد جموں کشمیر جس پر پاکستان نے ۷۴۹۱ میں قبضہ کر لیا تھا۔تمام اختیارات و وسائل سے محروم ایک نوآبادی کے طور پر پاکستانی حکومت اور فوج کے رحم و کرم پہ ہے،جس میں عوام جبر ذلت اورمفلوق الحالی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان ہوس ملک گیری کے لیے اے جے کے ،کے نا صرف وسائل کو لوت رہا ہے بلکہ عوام کی عزت نفس کو بھی تارتار کر رہا ہے۔قبضہ گیری کے لو ٹ کھسوٹ کے اس نظام کو اس نے مختلف نام دیے ہیں۔ایک طفیلی حکومت قائم کر کے اس کا آئین بھی بنایا ہوا ہے۔

جس کو وہ عبوری آئین ۴۷۹۱ کہتا ہے کی روشنی میں ایک ۲۵ رکنی اسمبلی بنائی جاتی ہے جو ایک وزیراعظم اور صدر کا انتخاب کرتی ہے۔بظاہر یہ ریاست میں حکومت کے سارے لوازمات پورے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس حکومت کو نہ کوئی اختیار حاصل ہے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کی اجازت۔
عبوری آئین ۴۷۹۱ اٹھاون شقوں پر مشتمل ہے جس میں سے اے جے کے حکومت صرف دو شقوں کے تحت چھوٹا موٹا فیصلہ کر سکتی ہے،بقیہ چھاپن(۶۵) شقیں پاکستان کے اختیار میں ہیں۔اس آئین کی روح سے کوئی سیاسی جماعت فرد یا گروہ نہ تو انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہو سکتی ہے جو پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین نہ رکھتی ہو،ثبوت کے طور پر پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا حلف نامہ بھر کے دینا ہوتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کی فوج کے خلاف بات نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ ہی نتقید یہ سب غداری کے زمرے میں آتا ہے۔

کاغذی طور پر صدر وزیراعظم کابینہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ اور اسمبلی موجود ہیں لیکن عملی طور پر ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ان سب کو کنڑرول میں رکھنے کے لیے ایک اور ادارہ کشمیر کونسل بھی بنا رکھا ہے جس میں سات ممبر

AJK

اور چھ ممبر پاکستان سے لیے جاتے ہیں جس کا چیئرمین پاکستان کا وزیراعظم ہو تا ہے،وزارت امور کشمیر پاکستان سارے معملات کو اپنے کنڑرول میں رکھتی ہے۔سیاسی طور پر اپنے قبضے کو زیادہ مستحکم رکھنے کے لئیے ایک چیف سکریٹری،ہلیتھ سکریٹری،اڈیٹر جنرل اور انسپکٹر جنرل پولیس براہ رست پاکستان سے تعنیات کیے جاتے ہیں جن کے پاس بے پناہ اختیارات ہوتے ہیں،عملی طور پر وزیراعظم اور حکومت چیف سکریٹری کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستانی فوج کی چھاونیوں کا جال بچھایا گیا ہے کہ ہر بڑے شہر میں داخل ہونے ا ور باہر جانے کے راستوں پر فوجی کیمپ موجود ہیں جو ہر طرح کی نقل وہرکت پر نظر رکھتے ہیں مثال کے طور پر دارالحکومت مظفرآباد کے داخلی دروازے امبور پر فوجی چوکی موجود ہے جہاں ہر وقت مسلح فوجی گارڈز ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔اسی طرح پونچھ کے ڈسٹرکٹ باغ میں داخل ہونے سے پہلے چہالہ،منگ بجری اور ہاڑی گہل میں فوجی کیمپ آبادی کے درمیان قائم ہیں اور شہر سے کے خارجی دروازے قادر آباد او ر چھتر نمبر ۲ (برہمناں)پر پاکستان آرمی کا برگیڈ ہیڈکوارٹر موجود ہے جبکہ باغ شہر کے وسط میں فوجی ہسپتال، ایم ڈی ایس، قائم ہے،اسی طرپونچھ کا ڈسٹرکٹ راولاکوٹ چاروں طرف سے فوجی کیمپوں کے نرغے میں ہے اور پوٹھی کے مقام پر بدنام زمانامہ دہشت گرد خفیہ ادارہ آئی ایس آئی کا ہیڈکوارٹر قائم ہے۔

جہاں نا پسندیدہ لوگوں کی تفتیش کی جاتی ہے۔جبکہ ڈسٹرکٹ ہسپتال براہ راست فوج کے استعمال میں ہے۔اسی طرح ضلع میرپور میں داخلے سے پہلے منگلا کے مقام پر فوجی کیمپ اور چو کی موجود ہے ہر شخص کو مشکوک سمجھا جاتا ہے اور شہر میں داخلے سے پہلے اندراج کروانا لازمی ہے،یہی سے منگلا ڈیم شروع ہوتا ہے،جبکہ ضلع بھمبر جموں کے قریب ہونے کے سبب فوج کے سخت کنٹرول میں ہے، اسی طرح ضلع کوٹلی کے شہر میں داخلے سے پہلے اور بعد فوجی کیمپ موجود ہیں او ر بعض نواحی علاقوں تربیت کیمپ بھی چلائے جاتے رہے ہیں JKLF

اور کچھ دوسری جہادی گروپوں کے تربیت کیمپ ایک عرصے تک پاکستانی فوج کی نگرانی میں یہاں قائم رہے،کیمپ اب بھی موجود ہیں لیکن سرگرمیاں محدود کر دی گئی ہیں۔کوٹلی کی تحصیل نکیال تو مکمل طور پر پاکستانی فوج کے حصار میں ہے جہاں جہادی گروپوں کی آزادانہ نقل و ہرکت جاری رہتی ہے۔
دوسرے فائربندی لائن پونچھ کے علاقوں ہجیرہ،دواراندی،عباسپور اور فارورڈ کہوٹہ میں تو عام لوگوں کو بے پناہ تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،خواتین کی آبرو اورجان و مال کو ہر وقت خطرات سے رہتے ہیں، آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ رونماء ہو جاتا ہے جس میں پاکستانی فوجی ملوث ہوتے ہیں لیکن جزاء و سزاء کا کوئی نظام نہیں وہاں پہ صرف فوجی حکم چلتا ہے۔
اسی طرح مظفرآباڈویڑن کے علاقے لیپہ اور نیلم میں تو عام آدمی داخل ہی نہیں ہو سکتا اور مقامی آبادی بد ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہے درجنوں فوجی چیک پوسٹوں پر عام شہریوں کی جامہ تلاشی گالی گلوچ روز کا معمول ہے۔آزاد جموں کشمیر کی سول انتظامیہ مقامی
فو جی کمانڈروں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے، کوئی کام ان کی اجازت کے بغیر سرانجام نہیں دے سکتی۔فوج جہاں چاہتی ہے زمین پر قبضہ کر کے چھاونی بنا لیتی ہے اور اب تو سیاحتی مقامات پر بھی قبضے کر رہی ہے حال ہی میں راولاکوٹ اور باغ کے مشترکہ سیاحتی مقام تولی پیر پر پاکستانی فوج نے قبضہ کر لیا،اسی طرح باغ شہر کے وسط محکمہ صحت کی زمین پر دن دھاڑے قبضہ کر کے تجارتی بنیادوں پر ماکیٹ تعمیر کر کے کرایے پر دے دی گئی ہے۔

دوسری طرف تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لئے پاکستان کا وفاداررہنے کا قسم نامہ (حلف نامہ) لیا جاتا ہے،
بصورت دیگر داخلہ اور ملازمت کا حصول نا ممکن ہے۔فوج اور پاکستان پر کسی بھی طرح کی تنقید جرم ہے،آ ے دن لوگوں کے خلاف غداری کے مقدمات بنائے جاتے ہیں خاص طور پر ترقی پسند،سیکولر،آزادی پسنداور حقیقی قوم پرست حدف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے چاروں طرف خوف چھایا رہتا ہے لوگ آزادانہ بات چیت کرنے سے گبھراتے ہیں۔یا پھر جہادی گروپوں کے ذریعے ان کو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

جہادی گروپوں کا عمل دخل

پاکستانی فوج کی نگرانی میں بے شمار جہادی گروپ کام کرتے ہیں جن میں حزب المجاہدین،لشکر طیبہ،جماعت الدعوہ،جیش محمد اور اسی طرح کے بے شمار گروپ کام کرتے ہیں۔جن کا کام جہاد کی تبلیغ کرنا لیٹریچر تقسیم کرنا پروپیگنڈہ کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو جہاد کی طرف راغب کر کے تربیتی کیمپوں میں بھیجا جاتا ہے،جہاں پاکستانی فوج ان کو ٹرنینگ دے کر کاروائیوں کے لئے بھیجتی ہے اور مقامی لوگوں کو کنترول کرنے ک لئے خوفزدہ کرتی ہے۔
سول انتیطامیہ اور حکومت نام نہاد آزاد جموں کشمیر ان جہادی گروہوں سے کوی بات پرس نہیں کر سکتی بلکہ سرکاری ملازمین اور افسران کی ایک بڑی تعداد ان کو ماہانہ چندہ بھی دیتی ہیں ان میں سے کچھ خوف کی وجہ سے اور کچھ نظریاتی وابستگی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔
یہ جہادی کیمپ براہ راست پاکستانی فوج کی نگرانی میں کام کرتے ہیں جن کے دفاتر مظفرآاباد میں ہیں جبکہ تربیتی کیمپ پورے آزاد کشمیر کے جنگلوں اور دور دراز علاقوں میں قائم ہیں جہاں عام آدمی کا داخل نہیں ہو سکتایہ سارے کیمپ نیلم،لیپہ نکیال،ہجیرہ فاروڈ کہوٹہ کوٹلی اور کھوئی رٹہ کے علاوہ پاکستان کے علاقے ما نسہرہ میں فوجی چھاونیوں کے قریب ہوتے ہیں جہان فوج ان کو تربیت دیتی ہے۔


ہر جہادی گروپ کا ایک ایریا مقرر کیا جاتا ہے تربیت حاصل کرنے والوں میں مقبوضہ آزاد جموں کشمیر کے علاوہ پاکستان ک مختلف صوبوں خاص طور پر پنجاب اور پختوں خواہ اور افغانستان اور ہندوستانی کشیرسے تعلق رکھتے ہیں۔

جماعت اسلامی بڑے پیمانے پر فوج کی سرپرستی میں کام کرتی ہے سینکڑوں تعلیمی ادارے(اسکول) ریڈ فاونڈیشن

(Read Foundation)

کے زیر اہتمام چلاتی ہے جس میں ہزاروں طالبعلموں کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے ذیلی ادارے خدمت اسلامی کے ذریعے بیشمار یتیم خانے اور دیگر دوسرے رفاعی بھی کام کرتے ہیں جن کو حکومت کی طرف سے نہ صرف مالی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے بلکہ ان کو مقامی انتظامیہ اور فوج کی سر پرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ان اداروں کے ذریعے منظم طریقے سے جہادی بیانئیے کی تشہیر کی جاتی ہے،ان کے زیر اہتمام چھپنے والے میگزین کتابیں اور رسائیل کو بڑے پیمانے پر تمام تعلیمی اداروں، سرکاری
اداروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

سکولوں کے سالانہ امتحانی نتائیج کے موقعہ پر پاکستانی فوج کے مقامی کمانڈرز کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعوہ کیا جاتا ہے اور بعض اوقات سکولوں میں فوجی ہتھیاروں کی نمائش بھی کی جاتی ہے۔کرونا وباء سے پہلے گورنمنٹ ہائی سکول بنہ مولا لیپہ میں ہیوی مشین گنوں کی نمائش کی گئی تھی،جس میں بچوں سے فوجی کمانڈروں کو سلامی پیش کروائی گئی تھی بعد میں سکول کے ہیڈ ماسٹر کو فوج کے دباؤ اور سفارش پر اس کو بڑے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔


عمومی طور پر جہادی بیانیہ اور بنیاد پرستی کے نظریات حاوی ہیں تقریباہر شخص اس سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہے،جبکہ آزادی پسند سیکولر سوچ کے حامل افراد اور تنظیموں پر عملی طور پر پابندی ہے اس وقت تک بارہ کتابیں بین کی جا چکی ہیں، پبلیشرز کوغداری کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان کے خفیہ ادارے تشدد کرنے اٹھا لینے اور جھوٹے مقدمات بنوانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، ایجنٹ، غدار، پاکستان اور اسلام دشمن قرار دیکرکسی کو بھی کسی وقت کوئی بھی قتل کر سکتا ہے۔قاتلوں کو ریاستی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
قوم پرست رہنما عارف شاہد سے لیکر داکٹر غلام عباس تک کے قاتل نا معلوم ہیں اور بیشمار ایسے واقعات ہیں جو رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں