بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں بچوں کو مسلسل نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بلوچ سرزمین کو نازی کیمپ میں تبدیل کردیا ہے جہاں مظلوم ومحکوم بلوچوں پر ظلم وبربریت کے نت نئے تجربے کیے جارہے ہیں۔ بربریت کے نئے سلسلے میں کمسن بچوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کل اٹھارہ اکتوبر کو ضلع واشک کی تحصیل گچک کے علاقے ٹوبہ میں پاکستانی فوج نے دو کمسن بچوں دس سالہ صنم جمیل بنت جمیل بلوچ اور گزین جمیل ولد جمیل بلوچ کوحراست کے بعد لاپتہ کیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پورے بلوچستان کی طرح گچک سے حراست بعد جبری لاپتہ بچوں کے خاندان سمیت پوری گاؤں گذشتہ ایک عرصے سے پاکستانی فوج کے بربریت کی زد میں ہے۔ ان کے بچوں کے دادا میر درے خان ولد محمد کریم کو پاکستانی فوج نے چالیس دن پہلے حراست میں لے کرجبری لاپتہ کردیا تھا۔ اسی خاندان کے خواتین و بچوں کو فوج پہلے ہی کئی ہفتوں تک فوجی ٹارچر سیلوں میں انتہائی تشدد کا نشانہ بنا چکی ہے۔
انھوں نے کہا اگر صرف اسی خاندان کی بات کی جائے تو یہ خاندان سمیت پورا گاؤں ایک مرتبہ جبری نقل مکانی کا شکار بن چکا ہے۔ ان کا آبائی گاؤں سولیر ہے جہاں سے ایک ماہ قبل فوج نے انھیں ٹوبہ گچک میں نقل مکانی پر مجبور کر دیا تھا اور چند دنوں سے فوج نے ایک بارپھر نقل مکانی کا حکم دیا ہیکہ یہاں سے کھن نامی گاؤں منتقل ہوجائیں۔ گاؤں کے مکینوں نے اس بار فوج کی حکم کوماننے سے انکارکردیا ہے۔ اس کا نتیجہ انھیں دو کمسن بچوں کی جبری گمشدگی کی صورت میں اٹھانا پڑا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوجی مظالم میں شدت کے ساتھ اس میں بچوں کو نشانہ بنانے کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے۔ 2017 کو کراچی سے کمسن بچوں آفتاب بلوچ اور الفت بلوچ کو اغوا کے بعد کئی مہینوں ٹارچر سیلوں میں رکھا گیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ خواتین اور بچوں کو اجتماعی سزا کے طور پر غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ دس اکتوبر کو ھوشاپ میں پاکستانی فوج کی مارٹر فائرنگ سے دو کمسن بہن بھائی اللہ بخش اور شراتون شہید ہوگئے تھے جبکہ ایک بچہ مسکان شدید زخمی ہوا تھا جو اب بھی ہسپتال میں زیر علاج اور موت و زیست کی کشمکش میں ہے۔ ان کے لواحقین نے احتجاج پر مجبور ہوکر لاشوں سمیت شال آئے۔ اٹھارہ اکتوبر ایک سرکاری اعلامیہ کے بعد مجرموں کو سزا دینے کے حکم کے بعد لواحقین نے احتجاج ختم کیا۔ ان کی تدفین نہیں ہوئی تھی کہ گچک ٹوبہ سے دو کمسن بچوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ھوشاپ ہی میں اسی سال تیرہ سالہ مراد امیر کو پاکستانی فوج نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بلیدہ میں کمسن رامز قتل کیے گئے۔ بلوچستان میں پاکستانی مظالم کے نہ رکنے والی سلسلے میں فوج کو میڈیا، عدالت اور دوسرے اداروں کی بھرپور حمایت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلوچ بچوں و خواتین کو منظم منصوبہ بندی کے تحت ہدف بنانے کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کی کاؤنٹر انسرجنسی پالیسی میں ایک نئے حربہ کے طورپر نظر آرہا ہے۔ اس پالیسی کے تحت فوج و خفیہ ادارے بلوچ آزادی پسند رہنماؤں، سیاسی کیڈرز و کارکنوں، سرمچاروں، ان کے رشتہ داروں، حامیوں اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے بلوچوں کے بچوں اور خواتین کو غیر قانونی طور پر اٹھاکر فوجی کیمپوں یا خفیہ مقامات پر جبری لاپتہ کرتے ہیں۔ اس گمشدگی کے دوران انھیں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی دفعہ دوران گمشدگی جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔
ترجمان نے کہاکہ پاکستان نازی طرز پر بلوچ نسل کشی میں تیزی سے عمل پیرا ہے لیکن پاکستان کا انجام ہٹلر اور نازی ازم سے قطعی مختلف نہیں ہوگا۔ بلوچ عوام کی بڑھتی ہوئی شعوری بیداری، سماج کے تمام طبقات کی تحریک میں بھرپور شراکت اور احساس غلامی نے پاکستانی قبضہ گیریت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ پاکستانی بربریت میں اس کی بوکھلاٹ اورشکست کے آثارنمایاں ہورہے ہیں۔