پاکستان میں کالعدم مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے حکومت پاکستان کو دو دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے ساتھ اپریل میں کیا جانا والا معاہدہ پورا نہ کیا گیا تو جمعرات کی شام آئندہ کا لائحہ عمل دے دیا جائے گا۔
ٹی ایل پی کا کہنا ہے کہ لاہور میں ان کا احتجاج مرکزی شوریٰ کے حکم پر پُرامن دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
احتجاجی دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ ’حکومت پاکستان کی جانب سے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے سے بار بار روگردانی کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تین دن میں معاہدے پر عملدرآمد کا کہا گیا تھا جبکہ اب 6 ماہ گزر گئے لیکن معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا ’لاہور میں پندرہ روز سے فٹ پاتھس پر ایک پرامن احتجاج جاری ہے اور کسی نے ان کی ایک بھی نہیں سنی۔‘
کالعدم جماعت تحریک لبیک کی جانب سے حکومت کو دو دن کا الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ ’اگر معاہدہ پر من و عن عملدرآمد نہ ہوا تو 21 اکتوبر شام 5 بجے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔‘ تحریک کی مجلس شوری کا کہنا ہے کہ ’سڑکیں بند کیے بغیر احتجاج کر کے بھی دیکھا۔‘
یاد رہے کہ تحریک کا اپریل میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے کالعدم مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کے مطالبے پر فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کے بعد ختم کیا گیا تھا۔
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے تنظیم کے موجودہ سربراہ حافظ سعد رضوی کے چچا کی درخواست پر ان کی نظر بندی کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دیا گیا جبکہ پنجاب حکومت نے سعد رضوی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے سعد رضوی کو رہا کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ عدالتِ عالیہ کو اس کیس سے متعلق تفصیلی ریکارڈ بھی فراہم کیا گیا تھا اور یہ کہ سعد رضوی کی نظربندی کا حکومتی فیصلہ قانونی طور پر درست ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ سعد رضوی کی رہائی کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ضلعی انتظامیہ نے سعد رضوی کی کوٹ لکھپت جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے تاہم ان کی رہائی تاحال عمل میں نہیں آئی ہے۔
یاد رہے کہ اپنے والد خادم رضوی کی وفات کے بعد مذہبی جماعت ٹی ایل پی کے سربراہ مقرر ہونے والے سعد رضوی کو پہلے وفاقی حکومت کے احکامات پر ایم پی او (نقص امن عامہ) کے قانون کے تحت نظر بند کیا گیا تھا اور ساتھ ہی انھیں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی دفعہ 11 ٹرپل ای کے تحت بھی جیل میں رکھا گیا تھا۔
ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو رواں برس اپریل میں لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔
پیغمبرِ اسلام کے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو 20 اپریل تک ملک بدر نہ کیے جانے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی دھمکی دینے والے تحریکِ لبیک کے امیر سعد رضوی کو اپریل کے وسط میں لاہور پولیس نے حراست میں لیا تھا۔
سعد رضوی پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنی جماعت کے کارکنان کو حکومت کے خلاف مظاہروں پر اکسایا جس کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد تحریکِ لبیک کی جانب سے ملک کے متعدد شہروں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
اس احتجاج کے دوران کم از کم چار پولیس اہلکار ہلاک جبکہ سینکڑوں اہلکار اور کارکن زخمی ہوئے تھے۔
حکومت نے 16 نومبر 2020 کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکاتی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمان سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا تھا۔
اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کے بعد فروری 2021 میں مذکورہ جماعت اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔
اس کے بعد تنظیم نے 20 اپریل تک فرانس کے سفیر کی ملک بدری نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم 12 اپریل کو احتجاج کا حالیہ سلسلہ تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد شروع ہوا تھا۔