امریکا کی مدد سے امریکا کو شکست – تحریر: کمال بلوچ

0
215

 

کافی عرصے سے لکھنے کی کوشش کرنا چاہ رہا تھا مگر کچھ لکھ نہیں پا رہا تھا اس کی وجوہا ت بہت کچھ ہو سکتی ہیں کیونکہ دنیا میں جو سماجی سیاسی اور ٹیکنالوجی میں تبدیلی آرہی ہے ان موضوعات پر بات کرنا بہت مشکل کام تھا، دوسری طرف دنیا کی بدلتی ہو ئی سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئےبلوچستان میں بسنے والے زیر عتاب قوم کے باسیوں پر بات کریں تو انسان خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوتا ہے ،مگر اس درد کو دنیا کے دیگر اقوام ہمارے طرح محسوس بھی نہیں کرسکتے یہ بات واضح ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اپنی اپنی سیاسی اور معاشی مفادات کو دیکھ کر بات کرتے ہیں۔

سمجھنے کے لیے بہت آسان سی بات ہے کہ دنیا کی سیاست کا فارمولہ یا ممالک کی شکل میں جو بڑی سیاسی طاقتیں ہیں ان کے درمیان طاقت کی تقسیم بائی پولر یا یونی پولر سے نکل کر ملٹی پولر میں داخل ہو ئی ہے ،اسی تگ دو میں ممالک خود کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں تاکہ اپنے مقام کو برقرار رکھ سکیں یا دوسری بات کہ اپنی طاقت کو مزید بڑھا سکیں ، اس عمل میں کوئی دوسرا جہنم میں چلا جائے کسی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔

امریکہ سپرپاور طاقت تو ہے ہی مگر اپنے اندورنی اور بیرونی مشکلا ت کا سامنا وہ بھی کرتا رہا ہے یہ چلنج صرف مظلوموں کے لیے نہیں بلکہ مظلوموں اور محکوموں کے لیے زیادہ ہے بلکہ ہر ایک کی مشکلات ان کے جیسے ہوتے ہیں جس طرح امریکہ کے صدارتی انتخاب کے دوران صدر بائیڈن کی کامیابی کے بعد امریکی سیاست میں نئی ہلچل پیدا ہوئی حتی کہ کچھ حلقےکیپیٹل ہل پر حملہ آور ہوئے اس کے بعد تاریخ میں پہلی دفعہ غیر معمولی تعداد میں فوجی اہلکاروں نے صدراتی حلف برداری میں آکر سیکورٹی کے فرایض انجام دیے تھے۔ اس کے بعد جو صورتحال تھی وہ پوری دنیا کے سامنے تھی اس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب دیکھ لیتے ہیں دینا میں سیاست اور معاشی حالات پر پیش گوئی ہورہی تھی کہ دنیا کی سیاست نئی رخ اختیار کر لے گئی ہے وہ صداقت پر مبنی تھی۔بائیڈن اپنی صدرات کی کرسی سنبھالنے کے بعد سابق صدر کی کچھ ایسی پالیسیوں کو اپنا کر آگے لے جارہا ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہیں مگر کہیں پر ان کی پالیسی بھی ہما رے سامنے ہے کہ ان کے اثرات پوری دنیا میں آچکی ہیں اس لیے نئی ابھرنے والی طاقتیں اپنی لیے مضبوط مقام حاصل کرنے کے تگ ودو میں ہیں ۔

جب بائیڈن نے افغانستان سے اپنی فوج کی واپسی کا اعلان کیا ایک دفعہ پھر پوری جنوبی ایشا سمیت دنیا کی سیاست نے نئی سمت پکڑ لی ،اس سے کا فی ممالک کے معشیت پر منفی اور مثبت اثر پڑے۔

لیکن امریکا سمیت وہ طاقتیں جو یہ چاہتی ہیں کہ ان کی پکڑ پوری دنیا پر مضبوط رہے اس کے لیے اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔جس طرح افغانستان میں روس کی آمد اور اسے اس خطے سے باہر کرنے میں امریکہ نے کردار ادا کیا تھا۔اس کے بعد خود افغانستان میں آکر اپنے قدم جمائے اسی تنا ظر میں پاکستان کے سابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کی اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ جب روس افغانستان میں آیا تو آئی ایس آئی نے امریکی کی مدد سے روس کو شکست دی تھی۔اسی طرح یہ بھی سنا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے امریکا کو شکست دی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے پاکستان کو امریکا اپنا دوست کہتا ہے دراصل وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے زرخرید کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان وہی ملک ہے جو مفادات کے لیے کسی بھی طرف رخ کرسکتا ہے اس وقت امریکا کے سامنے جو معاشی قوت ابھر کر سامنے آچکی ہے وہ چین ہے۔چین جو افریقی ممالک کو ادھار دی کر بدلے میں ان کی زمینوں کوہڑپ کرچکا ہے۔چین کی خواہش ہے کہ وہ دنیا میں مضبوط طاقت بن کر ابھرے۔ پاکستان چین کے ساتھ مل کر اس خطے میں بہت کچھ کررہا ہے اسے امریکی سمیت انڈیا اور دیگر ممالکوں کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان چین کو بلوچستان میں ایسی جگہ میں آباد کرنا چاہتا ہے جو دنیا کی سیاست کے لیے اہم ہے۔

چین گوادر میں نیول بیس بنا رہا ہے یہ بات کافی غور طلب ہے ،بلوچ اپنی مدد آپ جد وجہد کررہا ہے اس بات کواپنے نگاہ میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ جد وجہد نے ان کی سرمایہ کاری کو کافی نقصان دیا ہے لیکن اس کی قیمت بھی بلوچ چکا رہا ہے۔ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ہم یہ کہیں کہ بلوچوں کی نسل کشی ہو رہی ہے تو بجا ہے مگر سوال یہ پیدا ہو تا ہے پوری دنیا اس پر کیو ں خاموش تماشائی ہے۔

بلوچ پاکستان جیسے دہشت گرد طاقت کوروکنے کی کو شش میں ہیں لیکن دنیا کی طاقتوں کی نگاہ بلوچستان پر نہیں پڑ رہی۔آج ہم کہتے ہیں دہشت گردی کو روکنے کے لیے جتنی بڑی قیمت بلوچ آج چکا رہا ہے اس سے زیادہ ان طاقتوں کو سوچنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

بلوچستان کی جد وجہد کے سبب پاکستانی فوج کا وحشی پن اور بلوچ نسل کشی پر خطے کی طاقتیں اور عالمی طاقتیں خاموشی اختیار کرچکی ہیں ۔اس بات کو میں چیلنج سے کہتاہوں کہ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد خطہ اور دنیا کے امن کی ضامن ہو گی اگر وہ پاکستان کے دھوکے میں رہے تو وہی بات ہو گی جو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اقرار کرچکے ہیں کہ ہم افغانستان میں کس طرح کا رول ادا کرچکے ہیں اس ملک کا کردار آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا مستقبل میں بھی وہی رہے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں