امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کی دو کمپنیوں اور چار شہریوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان پر شبہ ہے کہ وہ ایران کے ڈرون پروگرام کا حصہ ہیں۔
واشنگٹن کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے پاسداران انقلاب کی معاونت کی ہے۔ ایرانی ایلیٹ فورس کو امریکا نے دو سال قبل دہشتگرد تنظیم قرار دا تھا۔
واشنٹگن حکومت کا الزام ہے کہ مذکورہ افراد و کمپنیوں نے لبنانی شیعہ عسکری و سیاسی تنظیم حزب اللہ اور یمن میں حوثی باغیوں کو ڈرون فراہم کیے۔ متاثرہ افراد اور کمپنیاں امریکا کے ساتھ کوئی کاروبار نہیں کر پائیں گے اور امریکا میں ان کے تمام اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے،” پاسدارن انقلاب کی جانب سے ایرانی کی حمایت رکھنے والے گروہوں کو ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد فراہم کی گئی ہے، ان گروہوں کی جانب سے کچھ حملے امریکی فوجیوں پر بھی کیے گئے۔”
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے،” ہم ایران کی دھمکی آمیز سرگرمیوں اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔”
ایران نے امریکا کی جانب سے عائد کی گئی ان پابندیوں کی مذمت کی ہے جب کہ اگلے ماہ ویانا میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا جائے گا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کا کہنا ہے،” یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بائیڈن ٹرمپ کی ہی پالیسیاں اپنا رہے ہیں۔”
واشنگٹن کی جانب سے یہ قدم ایک ایسے موقع پر اٹھایا گیا ہے جب روم میں جی ٹوئنٹی کے سربراہ اجلاس میں ایرانی جوہری ڈیل پر بھی شریک لیڈروں نے بات چیت بھی کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن فرانسیسی صدر سے ملاقات کر چکے ہیں اور وہ جرمن اور برطانوی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں بھی ایرانی جوہری مذاکرات کو بات چیت کے ایجنڈے پر ہے۔ فریقین اس مسئلے کا سفارتی حل تلاش کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ایران کی جانب سے جوہری مذاکرات کے اگلے دور میں شریک ہونے کا اعلان سامنے آ چکا ہے۔ مذاکرات کا نیا دور نومبر میں شروع ہو گا۔